شائقین کرکٹ نے چئیرمین پی سی بی کی کارکردگی پر سوال اٹھا دیا

رمیز راجہ کے دور میں یہی ٹیم ہر ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل، فائنل میں پہنچ رہی تھی، 92 کے بعد پہلی مرتبہ نمبر 1 رینکنگ ملی، اب یہی ٹیم محسن نقوی کے دور میں 3 آئی سی سی ٹورنامنٹ کے پہلے ہی راونڈ میں باہر ہو گئی، شائقین کرکٹ کا ردعمل

muhammad ali محمد علی پیر 24 فروری 2025 20:18

شائقین کرکٹ نے چئیرمین پی سی بی کی کارکردگی پر سوال اٹھا دیا
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 24 فروری 2025ء) شائقین کرکٹ نے چئیرمین پی سی بی کی کارکردگی پر سوال اٹھا دیا۔ تفصیلات کے مطابق آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی شرمناک ترین کارکردگی پر پاکستانی شائقین کرکٹ کی جانب سے شدید ردعمل دیتے ہوئے چئیرمین پی سی بی محسن نقوی کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جا رہی ہیں۔ شائقین کرکٹ نے سوال کیا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ یہی ٹیم جب سابق چئیرمین رمیز راجہ کے دور میں کھیل رہی تھی تو ہر آئی سی سی یا بین الاقوامی ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل یا فائنل میں پہنچ رہی تھی جبکہ 1992 کے بعد پہلی مرتبہ ایک روزہ کرکٹ کی رینکنگ میں پاکستان کو نمبر 1 پوزیشن ملی۔

ٹی ٹوئنٹی اور ٹیسٹ رینکنگ میں بھی پاکستان دنیا کے ٹاپ 5 ٹیموں میں شامل تھی۔

(جاری ہے)

اب چئیرمین محسن نقوی کے دور میں یہی ٹیم مسلسل 3 آئی سی سی ٹورنامنٹس کے پہلے ہی مرحلے سے باہر ہو گئی۔ اب پاکستان کی ٹیسٹ رینکنگ 8 ہے، ون ڈے رینکنگ 4 نمبر اور ٹی ٹوئنٹی رینکنگ 7 ہے۔ اس حوالے سے شائقین کرکٹ نے اپنی رائے کا مزید اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ رمیز راجہ خود کرکٹ کا تجربہ رکھتے تھے اسی لیے ان کے دور میں پاکستان کرکٹ ٹیم بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی تھی۔

جبکہ راشد لطیف نے نجم سیٹھی، ذکاء اشرف، محسن نقوی اور حکومت کو پاکستان کرکٹ کی تباہی کا ذمے دار قرار دے دیا۔ اپنے ایک بیان میں راشد لطیف کا کہنا ہے کہ " پاکستان کرکٹ تباہی کے دھانے پر ایسے ہی نہیں پہنچی اس میں حکومت اور سابق لیجینڈز کا اہم کردار رہا ہے ۔ سب اپنا اپنا سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرتے آئے ہیں چاہے نجم سیٹھی ہوں یا احسان مانی ، ذکا اشرف یا محسن نقوی ہوں ۔

تمام چیئرمین نے آتے ہی اپنی سوچ کے مطابق لیجینڈز کو اپنے قریب رکھا اور ان کے حوالے کرکٹ کر دی گئی جہاں سے ہماری کرکٹ کی تباہی شروع ہوئی۔ رَہی سَہی کَسَر فرینچایز کرکٹ نے پوری کر دی جو لوگ اس پی ایس ایل کو چلا رہے ہیں وہ پیشہُ ور نہیں ہیں اور دس سالوں سے اپنی جگہ بچانے کے لیئے گروپ بندی کی ہوئی ہے ۔ کھلاڑی حضرات کو پیسہ چاہیے چاہے کمینٹری سے آئے یا کوچنگ سے آئے یا ٹی وی پر ایکسپرٹ بن کر آئے یا مینٹور بن جائیں۔

یہ کہیں پر بھی کامیاب نہیں ہو سکتے اور نا ہی یہ پاکستان کرکٹ کو کوئی خاص فائدہ پہنچا سکتے ہیں ۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے اپنی ساکھ بچانے کے لیئے اپنے ہی کھلاڑی دوسرے چینلز پر بٹھا دیئے ہیں اور ایک وقت یہ بھی تھا کہ چیئرمین صاحب نے کہا تھا جو لوگ ٹی وی پر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں ہم انکو بورڈ میں نہیں لیں گے، لیکن اپنے ہی لیجینڈز کو ٹی وی پر بٹھا دیا۔

بہت کمزور لوگ ہیں یہ لوگ جو صرف سہاروں کے سہارے کھڑے رہ سکتے ہیں پی سی بی نے اپنے اپنے کھلاڑی الگ الگ چینلز پر بیٹھا دیا ہے تا کہ دھندوں پر پردہ ڈل سکیں۔" سابق کپتان کا مزید کہنا ہے کہ "یہ ایک بنی ہوئی ٹھیک ٹھاک ٹیم تھی لیکن کپتانی کا لالچ دیکر سابقہ چیئرمین نے بُری روایت ڈال دی ۔ نجم سیٹھی صاحب آئے انہوں نے شاداب کو کپتان بنایا پھر ذکا اشرف صاحب آئے اور کچھ سابقہ کپتانوں اور کھلاڑیوں کے کہنے پر شاہین آفریدی کو کپتان بنا دیا اور بات یہاں ختم نہیں ہوتی پھر محسن نقوی صاحب آئے انہوں نے کچھ سابقہ کپتانوں اور کھلاڑیوں کے کہنے پر بابر اعظم کو دوبارہ کپتان بنا دیا۔

بابر نے استعفی دے دیا تو رضوان کو کپتان بنایا ۔ جتنے بھی چیئرمین آئے وہ سیاسی بنیاد پر آئے وہ قابلیت پر بلکل نہیں آئے ۔ سابق کھلاڑی یا موجودہ کھلاڑی ایک پیادے کی حیثیت رکھتا ہے جس کو چیئرمین وزیر بناتا ہے اور وزیر کو ایک پیادے سے پٹوا بھی دیتا ہے ۔ قصہ مختصر ، جب سرفراز کو احسان مانی نے کپتانی سے ہٹوایا تھا اس دن سے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی بربادی کے دن شروع ہو گئے تھے ۔ حکومت وقت سے التجا ہے کہ بورڈ میں سیاسی بھرتیاں بند کریں ، پی سی بی کے دستور میں تبدیلی کریں چئیرمین کرکٹ بورڈ کیوں سلیکشن کمیٹی بناتا ہے ؟ اور کیوں چیئرمین کے پاس کپتان بنانے کی طاقت ہوتی ہے ؟ یہ بنیادی غلطیاں ہیں جس کو جلد از جلد ٹھیک کرنا ہو گا ورنہ ہم بھوٹان سے بھی ہارنے لگیں گے ۔"