پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کے زیر اہتمام گول میز مذاکرہ

جمعرات 27 فروری 2025 21:00

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 27 فروری2025ء) پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی(ایس ڈی پی آئی) کے زیر اہتمام”انتظامی ڈھانچے کی سیاسی معیشت“ کے موضوع پر گول میز مذاکرے کا انعقاد ہوا۔اس دوران شرکا نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ملک میں عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے کا نظام غیر موثر ہے، اس لئے مقامی حکومتوں کو مضبوط کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے تاہم مزید صوبے بنانے کے حوالے سے انہوں نے مختلف آراء کا اظہار کیا، جو ماہرین چھوٹے صوبے بنانے کے حق میں تھے ان کا کہنا تھا کہ نئے صوبے انتظامی بنیادوں پر قائم کئے جانے چاہئیں جبکہ دیگر ماہرین کا موقف تھا کہ پاکستان میں صوبے صرف آئینی ترمیم کے ذریعے اور مقامی زبان، ثقافت اور دیگر سماجی عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی تشکیل دیئے جا سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

گفتگو کا آغاز معروف ماہرِ تعلیم اور نجی میڈیا گروپ کے سربراہ میاں محمد عامر کے تحقیقی مقالے”پاکستان 1947تا2025: عوامی فلاح میں ناکامی کی وجوہات؟“ سے کیا گیا۔ میاں عامر محمود نے کہا کہ پاکستان میں ترقی صرف پانچ دارالحکومتوں (ایک وفاقی اور چار صوبائی) تک محدود ہے باقی ملک ان مراکز سے دور ہونے کی وجہ سے محرومی کا شکار ہے۔ اس عدم مساوات کے خاتمے کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر ڈویژن کی سطح پر چھوٹے صوبے بنائے جائیں تاکہ پورے ملک کے عوام کو ترقی کے ثمرات حاصل ہو سکیں۔

میاں عامر کا کہنا تھا کہ ہم اس موضوع پر گفتگو سے کتراتے ہیں حالانکہ عوامی سطح پر یہ فیصلہ انتہائی مقبول ہو سکتا ہے۔ انہوں نے ایس ڈی پی آئی کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس اہم موضوع پر مکالمے کا آغاز کیا۔پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر (ر) فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ان کی جماعت میں بھی اس معاملے پر غور ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہمیں آئینی نکات کا جائزہ لینا ہوگا۔

انہوں نے واضح کیا کہ جب تک متعلقہ صوبائی اسمبلی متفقہ قرارداد منظور نہیں کرتی کوئی نیا صوبہ نہیں بن سکتا جیسا کہ پنجاب اسمبلی نے سرائیکی صوبے کے حق میں قرارداد منظور کی تھی۔ اگر نئے صوبے بنانے ہیں تو ہمیں آئین کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی لانا ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ اصل مسئلہ اختیارات کا غیر متوازن نظام ہے۔ چھوٹے صوبے بنانے کے بجائے، مقامی حکومتوں کو اختیارات دیئے جائیں تاکہ عوام کو حقیقی فائدہ پہنچ سکے۔

سابق صوبائی وزیر میاں عمران مسعود نے چھوٹے صوبے بنانے کے تصور کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد اختیارات کی منتقلی سے کوئی نقصان نہیں ہوا لہٰذا نئے صوبوں کے قیام سے بھی کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر تمام فریقین متفق ہو جائیں تو ایک اور آئینی ترمیم کے ذریعے اس راہ کو ہموار کیا جا سکتا ہے۔متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما سید حیدر عباس رضوی نے کہا کہ پاکستان کو اصل میں انتظامی مسائل کا سامنا ہے، اگر ہم نئے صوبے انتظامی بنیادوں پر تشکیل دیں تو ہمارے سماجی و اقتصادی اور سیاسی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اختیارات کی منتقلی پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ نیشنل فنانس کمیشن کی طرز پر ایک صوبائی مالیاتی کمیشن تشکیل دیا جائے تاکہ مقامی حکومتوں کو مزید بااختیار بنایا جا سکے۔سابق وزیر خزانہ پنجاب ڈاکٹر شاہد کاردار نے کہا کہ کہ ہمیں اپنی جمہوریت کو وفاقی انداز میں چلانے اور اختیارات کو مقامی سطح تک لے جانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کے مسائل حل ہوسکیں ۔

سابق وفاقی سیکریٹری سید کلیم امام نے اس بحث کو عوام تک لے جانے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ عوام کی آراءبھی سامنے آ سکیں۔سینئر صحافی زاہد حسین نے کہا کہ پاکستان کا نظام ریاستی مرکزیت پر مبنی ہے، ہمیں مقامی حکومت کے موثر نظام کے قیام اور انتظامی سطح پر نئی حد بندیوں کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو بہتر سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ انسانی حقوق کے وکیل کرنل (ر) انعام الرحمان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کے دور میں عوام سے کچھ بھی چھپایا نہیں جا سکتا ،اس لئے عوام کو ان کے حقوق سے آگاہ کیا جانا چاہئے۔ ان کا مشورہ تھا کہ نئے صوبوں کے قیام پر ریفرنڈم کرایا جائے۔