جعفرایکسپریس کے بازیاب ہونے والے 80 سے زیادہ مسافروں کو کوئٹہ پہنچا دیا گیا ہے

بدھ 12 مارچ 2025 23:09

جعفرایکسپریس کے بازیاب ہونے والے 80 سے زیادہ مسافروں کو کوئٹہ پہنچا ..
کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 12 مارچ2025ء) پاکستان کے صوبے بلوچستان میں شدت پسندوں کی جانب سے منگل کی دوپہر کوئٹہ سے پشاور جانے والی مسافر ٹرین جعفر ایکسپریس پر حملے اور سینکڑوں مسافروں کو یرغمال بنائے جانے کے بعد سکیورٹی فورسز کا کلیئرنس آپریشن تاحال جاری ہے۔اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند بلوچ تنظیم بی ایل اے نے قبول کی ہے۔

عسکری ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ اب تک 150 سے زیادہ مسافروں کو بازیاب کروا لیا گیا ہے جبکہ باقی افراد کے بارے میں تاحال کوئی مصدقہ معلومات موجود نہیں ہیں۔عسکری ذرائع نے آپریشن میں 27 شدت پسندوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔جعفر ایکسپریس کے بازیاب ہونے والے 80 سے زیادہ مسافروں کو کوئٹہ پہنچا دیا گیا ہے۔جعفر ایکسپریس پر حملہ کیسے ہوا شدت پسندوں سے لڑنے والے پولیس اہلکار کے مغوی بننے سے فرار تک کی کہانی بتاتے ہوئے کہاکہ گاڑی سرنگ میں نہیں تھی، کھلی جگہ پر تھی حملہ آور سینکڑوں کی تعداد میں تھے ٹرین میں سوار ریلوے پولیس کے اہلکار کے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ بلوچ شدت پسندوں کے حملے کے بعد پہلے تو انھوں نے دیگر ’پولیس اہلکاروں کے ساتھ مل کر مقابلہ کیا‘ لیکن پھر ’ایمونیشن ختم ہونے پر‘ انھیں بھی یرغمال بنا لیا گیا۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا ہے کہ وہ ریل گاڑی پر بلوچ لبریشن آرمی کے شدت پسندوں کے حملے کے چند گھنٹے بعد جائے وقوعہ سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے لیکن اس سے پہلے انھوں نے اس مقام پر کیا دیکھا اور جعفر ایکسپریس پر حملہ کیسے ہوا، اس کی تفصیل انھوں نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتائی کہ کوئٹہ میں موجود ان پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حکام کی جانب سے دی جانے والی ابتدائی اطلاعات کے برعکس جب ریل گاڑی کو نشانہ بنایا گیا تو وہ ’سرنگ میں نہیں بلکہ ایک کھلی جگہ پر تھی۔

‘ خیال رہے کہ بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے بھی اس کارروائی کی ایک مبینہ ویڈیو جاری کی گئی ہے جس میں ٹرین کو دھماکے کے وقت کھلی جگہ پر دیکھا جا سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’اچانک ریلوے ٹریک پر ایک دھماکہ ہوا جس کے بعد گاڑی رک گئی۔ٹرین کے رکتے ہی لانچر (راکٹ) لگنے شروع ہو گئے اور ہم سمجھ گئے کہ معاملہ ہو گیا ہے۔‘یاد رہے کہ کوئٹہ سے پشاور جانے والی مسافر ٹرین جعفر ایکسپریس پر گزشتہ روز جب حملہ ہوا تو اس وقت ریل گاڑی میں 400 سے زیادہ مسافر سوار تھے۔

عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ بدھ کی صبح تک 155 مسافروں کو بازیاب کروا لیا گیا ہے۔اہلکار کے مطابق جب ریل گاڑی رکی تو بہت بڑی تعداد میں شدت پسند وہاں پہنچ گئے۔ 'وہ پہاڑ پر ہمارے سامنے پھر رہے تھے اور سینکڑوں کی تعداد میں تھے۔جعفر ایکسپریس پر شدت پسندوں کے حملے کے عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ ریلوے پولیس کے چار اور ایف سی کے دو اہلکار تھے۔

’میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ تھا۔ پانچ ہم اور دو ایف سی والوں سمیت ہم سات تھے۔اہلکار کے مطابق انھوں نے حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا اور جوابی فائرنگ کرنے لگے۔میں نے ساتھی سے کہا کہ مجھے جی تھری رائفل دے دو کیوں کہ وہ زیادہ بہتر ہتھیار ہے۔ مجھے رائفل اور راؤنڈ مل گئے تو ہم نے بھی جوابی فائرنگ شروع کر دی۔ میں ایک ایک گولی چلاتا تھا ان کی طرف تاکہ وہ ہمارے اور ریل گاڑی کے قریب نہ آ سکیں۔