کسی کو بندوق کے زور پر ریاست کو توڑنے کی اجازت نہیں دی جائے گی،شرپسند عناصر کا قلع قمع کر کے دم لیں گے،وزیراعلی بلوچستان

جمعرات 13 مارچ 2025 00:10

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 13 مارچ2025ء) وزیراعلیٰ بلوچستان میرسرفرازاحمد بگٹی نے کہاہے کہ دہشتگرد بندوق کے زور پر اپنانظریہ مسلط کرنے کی کوشش کررہے ہیں ،جو لوگ بندوق کے زور پر ریاست کو توڑنے کی کوشش کرینگے تو ریاست ہر صورت ایسے عناصر کا قلع قمع کرکے رہے گی ۔ ان خیالات کااظہار انہوں نے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

وزیراعلیٰ بلوچستان میرسرفرازبگٹی نے کہاکہ پارلیمان کے فلور پر بارہا اعلان کیاہے کہ اگر کوئی کنفلیکٹ ڈائیلاگ کے ذریعے حل ہوتاہے تو نہ صرف حکومت بلوچستان بلکہ ریاست بھی ڈائیلاگ کیلئے تیار ہے ،دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہمارے 380لوگ شہید ہوئے لیکن پاکستان کی خاطر تمام خون معاف کرنے کوتیار ہوں ،اس جنگ کو سمجھنے کی ضرورت ہے ،یہ کنفیوژن کیوں ہے،کیا یہ لڑائی بے روزگاری یا پسماندگی کی وجہ سے ہے؟ ایک رکن اسمبلی جذباتی ہوگئی اس شوق میں کہ شام کو فیس بک پر ویڈیو چلنی چاہیے ۔

(جاری ہے)

کونسے حقوق جو پارلیمان نے بلوچستان کو نہیں دئیے ؟ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے ساری زندگی صوبائی خودمختاری کیلئے جدوجہد کی ،18ویں ترمیم نے توقع سے زیادہ حقوق دے دئیے ،مسئلہ یہ ہے کہ دہشتگردی اورتشدد کاشکار ہونے والے متاثر کی بات کرنے والا کوئی نہیں ہے ،وہ معصوم مسافر جس کیلئے کوئی آواز نہیں اٹھتی ،کاش یہ شور سنائی دیتا کہ ان لوگوں کانام لیکرکہ بشیرزیب،ڈاکٹراللہ نذر، براہمداغ بگٹی،حربیار مری جیسے لوگ قتل وغارت گیری میں ملوث ہیں ،کیا ان لوگوں کو ریاست نے بار بار مواقع نہیں دئیے؟ ریاست پاکستان نے بار بار ماں کا کردار ادا کیا،نواب خیربخش مری سے مذاکرات کرکے انہیں واپس نہیں لایاگیا اور آتے ہی کوئٹہ ائیرپورٹ پر پہلے دن انہوں نے پاکستان کاجھنڈا جلایا،کیا انہوں نے سریاب میں سرکل لگا کرآزاد بلوچستان کیلئے ایڈوکیسی نہیں کی ؟ کیا یہ سب تاریخ کا حصہ نہیں کہ بالاچ مری کولندن سے لایاگیا،کیا اس ریاست نے بار بار یہ کام نہیں کیا؟ 500لوگ ہمارے قتل کرے اور پھر ہم بھی معافی مانگیں لیکن میں پھر بھی معافی مانگنے کیلئے تیار ہوں کیاوہ یہ لوگ معافی قبول کرنے کیلئے تیار ہیں ،پچھلے 10سال سے معافی مانگتے آرہے ہیں ،افسوس ہوتاہے کہ دودا خان کا بیٹا بشیر زیب کو بشیر زیب صاحب کہہ رہے ہیں ،ہمیں اس لڑائی کو سمجھنے کی ضرورت ہے ،بی ایل اے کوئی جرگہ کررہاہے تو میں ان کے ساتھ جرگہ کروں ،کوئی سکول کا نظام چلا رہاہے اور میں جاکر کہوں کہ اس سکول کانظام ٹھیک نہیں میں آپ کا سکول چلائوں گا، یہ لوگ بندوق کے زور پر اپنا نظریہ مسلط کرناچاہتے ہیں تو کیا ہم تشدد کی اجازت دے دیں کہ وہ معصوم لوگوں کو بسوں سے اتار کر قتل کرناشروع کردیں ،مفتی شامیر اور وڈیرہ کا کیا قصور تھا جو خضدار میں شہید ہوئے ،چن چن کر بلوچوں کو قتل کیاجارہاہے مخبری کے نام پر یہ کونسی بلوچ روایات ہیں؟جعفرایکسپریس ٹرین پر حملہ کیا گیا وہ فوجی جو چھٹی پر گھر جارہاہے وہ نہتا تصور کیاجاتاہے ،جنگ اور قومیت کے بھی کوئی اصول ہوتے ہیں ،ہمارے آبائواجداد نے تاریخیں رقم کیں ،بلوچوں کی تاریخ مہمان نوازی اور بہادری سے بھری پڑی ہے ،یہ کونسی تاریخ ہے کہ ریلوے پر حملہ کرکے نہتے ،بے گناہ مسافروں ،خواتین اور بچوں کو یرغمال بناتے ہیں ،جو بھی تشدد کرے گا ریا ست پاکستان توڑنے کی بات کرے گا،ریاست ان کا مکمل طورپر قلع قمع کریگی ،عام بلوچوں کو ریاست ایک بار نہیں ہزار بار گلے لگانے کیلئے تیارہے ،بلوچستان کے تمام بچے ویلفیئر ریاست کی طرح تعلیم حاصل کررہے ہیں ،یہ لوگ جو تشدد کررہے ہیں ان کے ساتھ کیاسلوک کیاجائے ،میں نے کبھی یہ نہیں کہاکہ بلوچستان کے حالات ٹھیک ہیں، یہ لوگ ایک انچ بھی 4سے 5گھنٹے سے زیادہ قبضہ نہیں کرسکتے ،جب ری ایکشن آتاہے توپھر کیوں غائب ہوجاتے ہیں ،دہشتگردوں نے ہمیشہ سافٹ ٹارگٹ نشانہ بنایاہے ،لڑائی لڑنے کا شوق ہے توکنٹومنٹس ہیں یہاں آئیں لیکن معصوم لوگوں کو کبھی ریلوے تو کبھی بسوں سے اتار کرقتل کیاجاتاہے ،ریاست ڈائیلاگ کیلئے تیار ہے لیکن یہ بندوق اٹھانے والے ڈائیلاگ کیلئے تیار نہیں ،یہاں دوقسم کے لوگ ہیں ایک وہ جو بندوق اٹھائے ہوئے ہیں اور دوسرے وہ جو ٹی وی یا دوسرے فورم پر ان لوگوں کیلئے ایڈوکیسی کرتے ہیں ،کوئی بھی ملک ریاست کے خلاف بات کرنے کی اجازت نہیں دیتا،کون لوگ ہیں یہ؟ کبھی ایک تھانہ وٹویٹر سردار کہتاہے کہ آپ جنگ ہار گئے جبکہ ریاست نے ابھی جنگ لڑنا شروع ہی نہیں کی جس دن جنگ شروع ہوئی توپھر پتہ چلے گاکہ کون جنگ جیت رہاہے کون ہار رہاہے ،ریاست اور حکومت صبر سے کام لے رہی ہے ،انہوں نے کہا کہ میری طرف سے اختیار ہے 100جرگے بلائیں اگر مسئلہ حل ہوتاہے تو حکومت سب کچھ کرنے کیلئے تیار ہے ،وہ لوگ بندوق لیکر قتل وغارت کررہے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ جرگہ کریں ،انہوں نے کہاکہ تجاویز تو مولاناہدایت الرحمن نے تحریری طورپر دی ہیں جن پر زیادہ ترپر بات کی جاسکتی ہے ،ایوان کو ان تجاویز کو آگے لیکر چلنا چاہیے ،بلوچستان اسمبلی صوبے کا جرگہ ہے جہاں 99فیصد ایسے لوگ جو ایک دو تین نسلوں سے سیاست کرتے آرہے ہیں ،انہوں نے کہاکہ کہاجاتاہے کہ فارم 47ہے کونسی فارم 47یہاں توبیٹھے اکثر لوگ دوسری یا تیسری دفع منتخب ہوکرآرہے ہیں میں یہ نہیں کہتاکہ مینجمنٹ نہیں ہوئی ،ریاست کوکنفیوژ کرنے کیلئے ایک بیانیہ اپنایاگیاہے جو آزادی کو سپورٹ کررہے ہیں جو بہت زیادہ خطرناک ہے ،کب تک ہم شف شف کرتے رہیں گے ،ہم کیوں نام نہیں لے رہے کہ بشیر زیب اور رحمن گل معصوم لوگوں کو قتل کررہے ہیں ،پورے پورے سیلز بنے ہوئے ہیں جو ہمارے نوجوانوں کو ورغلا رہے ہیں ،ہمیں نوجوانوں کے پاس جاکر میرٹ پر نوکریاں دینی چاہیے ،لڑنے والا یہ نہیں کہتاکہ یہ وجوہات ہیں بلکہ وہ یہ کہتاہے کہ میں آپ کا ملک کیک کی طرح کاٹنا چاہتاہوں ،پاکستان کو توڑنا چاہتاہوں یہ فیصلہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کیا فیصلہ کرینگے؟ میں ریاست کے ساتھ کھڑا ہوں اور کھڑا رہوں گا ،وزیراعظم شہبازشریف سے درخواست کروں گاکہ آل پارٹیز کانفرنس اسلام آباد یا کوئٹہ میں بلائیں اور ایک روڈ میپ دیں ،ایوان سے گزارش ہے کہ کنفیوژن سے باہر آئیں ،خیبرپشتونخوا میں جنگ شروع ہوئی توکہاگیاکہ یہ خیبرپشتونخوا کی جنگ ہے لیکن وہ جنگ کہاں تک پہنچی ،آج شاید ہم زیادہ خطرے میں ہونگے ،میرے خلاف تقریر کی جاتی ہے اگر بچت ہوتی ہے تو یہ بھی صحیح ہے ،یہ جنگ ہر گھر تک جائے گی اس کاسد باب وقت کی عین ضرورت ہے ۔

انہوں نے کہا کہ 200کے جتھے کے خلاف آپریشن کے سوا کوئی راستہ بتائیں ،جولوگ کہتے ہیں کہ بلوچستان کامسئلہ آپریشن نہیں تو خبر کے ساتھ سلوشن بھی دیں کہ مسئلے کا حل کیاہے؟ ان جتھوں کے ساتھ کیا کیاجائے ؟میں بلوچستان کے لوگوں کوباور کراناچاہتاہوں کہ ہماری کوششیں جاری ہیں اور بلوچستان میں امن وامان کا سورچ طلوع ہوگا ۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف میریونس عزیز زہری نے جعفرایکسپریس پر حملے میں معصوم لوگوں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ جمعیت علماء اسلام اس عمل کی مذمت کرتی ہے ۔

یہ ملک ہم سب کا ہے آئین کے مطابق حلف لیاہے اور ہم حلف کے پابند ہیں ،ان مسائل پر سب مل بیٹھ کر لائحہ عمل اپنائیں۔صوبائی وزیر میرسلیم احمد کھوسہ نے کہاکہ جعفر ایکسپریس واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے ،یہ واقعات تسلسل کے ساتھ چل رہے ہیں کچھ مہینوں میں بہت سے واقعات ہوئے ہیں سب دوستوں نے مذمت کی ،بلوچستان ہم سب کا ہے یہ ہمارا گھر ہے یہاں جو آگ لگی ہے اس آگ کی لپیٹ میں ہم سب ہیں ،ہم سب کو مل کر سوچنا پڑے گاکہ اس مسئلے کا حل کیاہے ؟ اس مسئلے کا حل نکالنا پڑے گا۔

صوبائی وزیر میر ظہوراحمدبلیدی نے بولان واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ نوجوانوں کو جنگ کاایندھن بنایاگیاہے ایک منظم پروپیگنڈے کے ذریعے نوجوانوں کو ریاست سے بدظن کیاجارہاہے یہ مسئلہ سادہ نہیں بلکہ ریاست پاکستان اور خصوصاََ بلوچستان وبلوچ قوم کے خلاف منظم سازش ہے ،صوبائی وزیر حاجی نور محمددمڑ نے کہاکہ بولان واقعہ پرہرگھر میں غم کا سماں ہے۔

رکن صوبائی اسمبلی مولاناہدایت الرحمن بلوچ نے کہاکہ امن وامان کے قیام کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کرلائحہ عمل اپنانے کی ضرورت ہے ،ہمیں بہت بڑی جنگ کاسامناہے پس منظر کو دیکھنے کی ضرورت ہے ۔خیرجان بلوچ نے جعفرایکسپریس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ تشدد یا جنگ کی پالیسی مسئلے کا حل نہیں ہے ،رکن صوبائی اسمبلی فرح عظیم شاہ نے کہاکہ اب مذمت سے بات آگے بڑھ گئی ہے عملی اقدامات کی ضرورت ہے ،جعفر ایکسپریس پر دہشتگردی کا حملہ ہوا یہ افسوسناک ہے کہ یہ نیوز بھارتی نیوز چینلز پر بریک ہوتی ہے ،حملہ آوروں کے ہاتھوں میں جدید اسلحہ ہوتاہے ،بھارت کا اسلحہ یہاں استعمال ہورہاہے ،ایک وقت تھا کہ بلوچستان میں امن وامان کی مثالیں دی جاتی تھیں جب مہاجرین یہاں آئے تو یہاں جرائم میں اضافہ ہوا،افغانستان کی سرزمین بھارت کے ذریعے پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کیلئے استعمال کی جارہی ہے ،بلوچستان پاکستان کا مستقبل ہے جس کی وجہ سے دشمن عناصر صوبے کونشانہ بنا رہے ہیں ۔

افواج پاکستان اور سیکورٹی فورسز کے جوان دن رات اپنی جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں ،یہ ذمہ داری صرف جوانوں کی نہیں بلکہ ہم سب پر عائد ہوتی ہے ۔