’لائیٹیں بھی بند کرنے کی اجازت نہ دی گئی اور ملازمین کو عمارت سے نکال دیا گیا‘

DW ڈی ڈبلیو پیر 17 مارچ 2025 21:00

’لائیٹیں بھی بند کرنے کی اجازت نہ دی گئی اور ملازمین کو عمارت سے نکال ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 مارچ 2025ء) 80 برس سے زائد عرصے تک خبریں اور تجزیے پیش کرنے والے معروف امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ کی بندش پر پاکستان میں بھی ٹرمپ انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ وی او اے امریکہ کا سب سے بڑا بین الاقوامی ملٹی میڈیا نیوز ادارہ تھا، جو 45 سے زائد زبانوں میں خبریں دیتا تھا۔

وی او اے کی ویب سائٹ کے مطابق اس کی نشریات کا آغاز سن 1942 میں ہوا اور وی او اے کا سالانہ خرچ امریکی ٹیکس دہندگان اٹھاتے رہے ہیں۔

وی او اے کو بند کرنے کا یہ فیصلہ امریکی حکومت کی جانب سے غیر ضروری اخراجات کم کرنے کی پالیسی کا حصہ ہے۔ تاہم اس اقدام پر صحافتی تنظیموں اور آزاد میڈیا کے حامیوں کی جانب سے تنقید بھی کی جا رہی ہے، جو اسے آزاد صحافت کے لیے نقصان دہ قرار دے رہے ہیں۔

(جاری ہے)

وائس آف امریکہ سے طویل وابستگی رکھنے والے اسلام آباد کے ایک صحافی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کے ساتھ ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں وی او اے کے عملے کی تعداد 30 کے لگ بھگ ہے۔ ان میں ایڈیٹر، رپورٹرز، ویڈیو ایڈیٹر اور سٹنگرز وغیرہ سب شامل ہیں۔ ان کے بقول وی او اے کی بندش کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب رمضان کا مہینہ چل رہا ہے اور عید قریب ہے اور آگے ملازمت جلد ملنے کے امکانات بھی واضح نہیں ہیں۔

ملازمین کے مالی مسائل

ان کے مطابق پاکستان میں وی او اے کے لیے کام کرنے والے کنٹریکٹ ملازمین کو ابھی تک فروری کی تنخواہیں بھی نہیں ملیں ہیں، ''تازہ اطلاعات کے مطابق پہلے مرحلے پر وی او اے کے مستقل اسٹاف کو آج سے ٹرمینیشن لیٹرز ملنا شروع ہو گئے ہیں۔ پاکستان میں 90 فیصد سے زیادہ ملازمین کنٹریکٹ پر کام کر رہے تھے۔ پتا نہیں اب ہمارے ساتھ کیا ہوتا ہے۔

‘‘

وی او اے سے وابستہ اس صحافی نے بتایا کہ تین دن پہلے یہ ای میل آئی تھی کہ روئٹرز، اے ایف پی اور دیگر نیوز ایجنسیوں سے نیوز فیڈ لینے کے معاہدے ختم کر دیے گئے ہیں کیونکہ ان پر امریکی ٹیکس دہندگان کا پیسہ خرچ ہو رہا تھا، ''ای میل میں یہ ہدایت کی گئی تھی کہ مذکورہ اداروں سے ملنے والا خبری مواد استعمال نہ کیا جائے۔ پھر ایک دن رات کے وقت ایک وٹس ایپ میسج پر انہیں اچانک اطلاع ملی کی وی او اے بند ہو گیا ہے۔

اب ان کا اس ادارے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اسے دوبارہ شروع کیا جانا ممکن نہیں ہے۔ ہم لوگ اگلے دن کے کام کو پلان کر رہے تھے، ایک اسٹوری کا آدھا شوٹ ہو گیا تھا، باقی صبح کرنا تھا کہ رات کو اچانک خبر آ گئی کہ سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ اس فیصلے پر عملدرآمد کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ افغانستان اور پاکستان کے کچھ علاقوں میں سنے جانے والے ریڈیو چینل دیوا کا لائیو پروگرام جاری تھا۔

اس پروگرام کو اچانک بند کر دیا گیا اور اسٹاف کو اسٹوڈیو کی لائیٹس بند کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور انہیں عمارت سے باہر نکال دیا گیا۔‘‘

صحافی تنظیموں کی طرف سے مذمت

پاکستان یونین آف جرنلٹس کے صدر محمد افضل بٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وی او اے کا بند ہونا ایک بری خبر ہے اور اسے جس طریقے سے بند کیا گیا ہے، وہ بھی بہت افسوس ناک ہے۔

ان کے مطابق یہ اقدام امریکیوں کے ان دعوؤں سے مطابقت نہیں رکھتا، جو وہ جمہوری اقدار اور آزادی صحافت کے اصولوں کی پاسداری کے حوالے سے کرتے رہے ہیں، ’’امریکہ ایک رجحان ساز ملک ہے، اس کے اقدامات کی پیروی دوسرے ملک بھی کرتے ہیں۔ اگر لیبر قوانین کو نظر انداز کر کے نامناسب انداز میں راتوں رات ادارے بند ہونا روایت بن گئی تو یہ ورکرز کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہو گی۔

‘‘

فری پریس ٹرمپ کے ایجنڈے پر نہیں، ڈی ڈبلیو کے سربراہ کا موقف

وائس آف امریکہ کے ایک اور اہلکار نے بتایا کہ وی او اے میں انسانی اہمیت کے حامل اکثر ایسے موضوعات کور ہوتے تھے، جن کو پاکستانی میڈیا پر پیش کرنے کی اجازت نہیں ملتی تھی۔ ان کے بقول اقلیتوں، خواتین اور اسپیشل افراد سمیت معاشرے کے کمزور طبقات کے مسائل اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اجاگر کی جاتی تھیں۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ممتاز صحافی حامد میر کا کہنا تھا کہ دباؤ کے بغیر پاکستان کی خبریں فراہم کرنے والا ایک دروازہ بند ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ پاکستان میں بعض اوقات ٹی وی پروگرام کے ذریعے حقائق عوام کے سامنے پیش کرنا ممکن نہیں رہتا، ایسے حالات میں یہ بین الاقوامی نشریاتی ادارے قوم کے سامنے سچ لانے کا ایک ذریعہ بنتے رہے ہیں، ''مثال کے طور پر 26 نومبر پاکستان کے صحافتی لوگوں کے لیے ایک اہم دن تھا۔

میں نے اس دن واقعات کی کوریج کی لیکن اس دن میرا پروگرام سینسر ہو گیا اور میرے ناظرین اسلام آباد میں ہونے والے واقعات کی تفصیل جاننے سے محروم رہے۔ لیکن اس موقع پر وائس آف امریکہ والوں نے میرا ایک انٹرویو کیا اور وہ وائرل ہو گیا اور جن حقائق کو پاکستان میں چھپانے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا تھا، وہ سب کے سامنے آ گئے۔‘‘

سینئر تجزیہ کار امتیاز عالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وائس آف امریکہ دراصل نہ صرف امریکی پالیسوں کے اظہار کا بھی ذریعہ تھا بلکہ یہ امریکہ کی سافٹ پاور کا بھی آئینہ دار تھا۔

ان کے مطابق یو ایس ایڈ اور وی او اے جیسے ادارے، جہاں مثبت کارکردگی کے حامل رہے ہیں، وہاں ان کے ذریعے سی آئی اے بھی آپریٹ کرتی رہی ہے، ''یہ امریکہ کی سرد جنگ کے دور کے انسٹرومنٹس تھے۔ ہم انہیں لبرل اس لئے سمجھتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں سینسر شپ بہت زیادہ تھی۔ اب پاکستانی صحافیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ملک کی صحافت کے لیے جدوجہد کریں۔

بیرونی نشریاتی اداروں سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرنا زیادہ مناسب نہیں۔ ان کے بجٹ پہلے ہی کم کیے جا چکے ہیں اور عوام کا رجحان بھی اب سوشل میڈیا کی طرف ہے۔‘‘

یہ کوئی اچھی خبر نہیں

نمل یونیورسٹی اسلام آباد میں میڈیا اینڈ کمیونیکیشن اسٹڈیز کے پروفیسر اور سماجی علوم کے سابق ڈین پروفیسر ڈاکٹر خالد سلطان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وائس آف امریکہ کی بندش کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔

ان کے بقول وی او اے اپنے تمام تر ایجنڈے اور خامیوں کے باوجود کسی حد تک صحافتی اصولوں کا پابند بھی تھا، اس کے صحافی عالمی میڈیا کی طرح سٹوری پر محنت کرتے، یونیق آئیڈیاز پر کام کرتے اور خبر کا اسٹوری بورڈ مکمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ حقائق کو پیش کرنے کا ان کا انداز پروفیشنل تھا،'' ہم عالمی نشریاتی اداروں کے صحافیوں کو اپنے ہاں ٹریننگ کے لیے بھی بلاتے، ان کی اپنے طلبہ سے گفتگو کرواتے اس سے کافی کچھ سیکھنے کو ملتا۔‘‘

وائس آف امریکہ جیو، ایکسپریس، دنیا اور آج ٹی وی پر پرائم ٹائم میں آدھے گھنٹے کا پروگرام بھی نشر کرتا رہا۔ اب اس ادارے کے بند ہو جانے سے ایسے ٹی وی چینلز کو بھی مالی نقصان کا سامنا ہو گا۔