اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 31 مارچ 2025ء) برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے پیر 31 مارچ کو لندن میں غیر قانونی مہاجرت کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کے موضوع پر ہونے والے ایک بڑے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دنیا بھر کی قوموں پر زور دیا کہ وہ اس مسئلے کے حل لیے تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لائیں۔ برطانوی وزیر نے زور دیتے ہوئے کہا کہ غیر قانونی نقل مکانی کے مسائل سے نمٹنے کی ضرورت ہر قدم پر پائی جاتی ہے اور شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے لے کر برطانیہ تک اس کے سد باب کے لیے تمام ممالک اور اقوام کو مل کر اپنے وسائل کا استعمال کرنا چاہیے۔
برطانیہ انسانوں کے اسمگلروں کے خلاف سخت کارروائی کرے گا
اس اجلاس میں دنیا کے 40 سے زیادہ ممالک، اداروں اور تنظیموں کے نمائندوں نے حصہ لیا۔
(جاری ہے)
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے برطانوی وزیر اعظم کئیر اسٹارمر نے غیر قانونی نقل مکانی کو تمام دنیا کے لیے سنگین مسئلہ قرار دیا۔ اس اجلاس کا مقصد غیر قانونی ہجرت اور انسانوں کو اسمگل کرنے والے گروہ جو اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں، کے خلاف کوششوں کو مربوط بنانا ہے۔
غیر قانونی ہجرت کا موضوع اتنا اہم کیوں؟
اسٹارمر، ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے اس سلسلے میں کوششیں کرنے والے اپنے پیشروؤں کی طرح غیر قانونی طور پر برطانیہ آنے والے تارکین وطن کا راستہ روکنے کے طریقے تلاش میں ہیں۔ اس ملک میں غیر قانونی مہاجرت سے بڑھتا ہوا سماجی دباؤ خاص طور پر انتخابی سیاست میں ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔
انہیں شدید فکر لاحق ہے کہ غیر قانونی نقل مکانی کرنے والوں کا برطانیہ کی طرف بہاؤ اسی طرح بڑھتا رہا تو صحت کی دیکھ بھال اور رہائش کے کم وسائل کی وجہ سے انہیں درپیش مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔غیرقانونی امیگریشن یورپ کا ایک بڑا مسئلہ، یورپی یونین کا اگلا صدر ملک اس سے کیسے نمٹے گا؟
'آرگنائزڈ امیگریشن کرائم سمٹ‘ سے خطاب کرتے ہوئے برطانوی وزیر اعظم کا کہنا تھا،''یہ برا کاروبار ہمارے اداروں کے درمیان پڑی دراڑوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔
ایک قوم کو دوسری قوم کے خلاف بھڑکاتا ہے۔ یہ سیاسی سطح پر ایک پیج پر نہ ہونے یا منقسم ہونے کی ہماری نااہلی کا فائدہ اُٹھاتا ہے۔‘‘امریکہ نے غیر قانونی بھارتی تارکین وطن کو واپس بھیجنا شروع کر دیا
برطانوی وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا،''میں اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ مہاجرت کے منظم جرائم سے نمٹا نہیں جا سکتا۔ ہمیں انٹیلیجنس اور حکمت عملی ایک دوسرے سے شیئر کرتے ہوئے اپنے وسائل کو یکجا کرنا ہوگا اور ہر قدم پر انسانی اسمگلنگ کےمسائل سے نمٹنا ہوگا۔
‘‘ہزاروں پاؤنڈ داؤ پر
یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن اسمگلروں کو ہزاروں پاؤنڈ ادا کرتے ہیں۔ یہ انسانی اسمگلر ربڑ کی چھوٹی کشتیوں میں گنجائش سے زیادہ تارکین وطن سوار کر نے کے بعد انہیں دنیا کی مصروف ترین آبی گزر گاہوں میں سے ایک یعنی انگلش کے زریعے برطانوی ساحلوں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے مابین کشیدگی: طورخم سرحد پھر بند
اسمگلرز اکثر و بیشتر سوشل میڈیا پر اپنی سروسز یا خدمات کی تشہیر کرتے ہیں۔
اس لندن سمٹ میں ایکس، ٹک ٹاک اور فیس بک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے نمائندے بھی شریک تھے۔انسانی اسمگلروں کے گروہوں کے سد باب کے لیے جرمنی کی کوششیں
جرمنی کی قائم مقام وزیر داخلہ نینسی فیزر بھی لندن منعقدہ آرگنائزڈ امیگریشن کرائم سمٹ میں موجود تھیں۔ انہوں نے انسانی اسمگلنگ سے نمٹنے میں جرمن انتظامیہ کی کامیابی کو اجاگر کیا۔
نینسی فیزر نے اجلاس کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہ کہ بین الاقوامی سطح پر اس مسئلے سے مشترکہ طور پر نمٹنے کے لیے تمام ممالک کو اکٹھا ہونا چاہیے۔ فیزر کے بقول،''ہمیں اسمگلنگ کرنے والے گروہوں کے وحشیانہ کاروبار کو روکنا چاہیے۔‘‘گزشتہ برس انگلش چینل سے قریب سینتیس ہزار تارکین وطن برطانیہ پہنچے
نینسی فیزر نے شراکت دار ممالک سے ''ان جرائم سے متعلق معلومات کا مزید تبادلہ کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ اس غیر قانونی دھندے کو بے نقاب کرنے اور ختم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کیے جا سکیں۔
‘‘نینسی فیزر نے اس موقع پر 2023 ء میں انسانی اسمگلروں کے زریعے جرمنی آنے والے تارکین وطن کی تعداد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس میں گراوٹ کی نشاندہی کی۔ ان کے بقول 2023ء میں ان کی تعداد 40 ہزار تھی، جو 2024 ء میں کم ہو کر دس ہزار ہو گئی۔