او آئی سی کا ہر رکن جموں و کشمیر کے عوام کی حق خودارادیت کی جدوجہد کی بھرپور حمایت کرتا ہے، یوسف الدوبے کا تقریب سے خطاب

پیر 21 اپریل 2025 21:20

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 21 اپریل2025ء) اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے سیکرٹری جنرل کے خصوصی ایلچی برائے جموں و کشمیر یوسف الدوبے نے کہا ہے کہ او آئی سی کا ہر رکن جموں و کشمیر کے عوام کی حق خودارادیت کی جدوجہد کی بھرپور حمایت کرتا ہے، او آئی سی کشمیریوں کے منصفانہ کاز کے پیچھے مضبوطی سے کھڑی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو یہاں انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد میں یوتھ فورم فار کشمیرکے تعاون سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

دیگر مقررین میں کنوینر آل پارٹیزحریت کانفرنس غلام محمد صفی اور چیئرمین کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز الطاف حسین وانی شامل تھے۔ یوسف الدوبے نے کہا کہ مظفر آباد کا دورہ اور وہاں کے لوگوں اور عہدیداروں سے ملاقاتیں انتہائی مددگار ثابت ہوئیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ان کے دورے کی وجہ جموں و کشمیر کے عوام کو یقین دلانا اور کشمیری عوام کے منصفانہ مقصد کے لئے او آئی سی کے پختہ عزم کا اعادہ کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر اقوام متحدہ اور او آئی سی دونوں کے ایجنڈے پر سب سے پرانے تنازعات میں سے ایک ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہ صرف او آئی سی ایک تنظیم کے طور پر بلکہ او آئی سی کا ہر رکن جموں و کشمیر کے عوام کی حق خودارادیت کی جدوجہد میں بھرپور حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے شرکاکو بتایا کہ او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے آئندہ اجلاس میں جموں و کشمیر کی صورتحال پر تفصیلی رپورٹ پیش کی جائے گی۔

ڈائریکٹر جنرل آئی ایس ایس آئی سہیل محمود نے اپنے استقبالیہ کلمات میں کہا کہ پاکستان او آئی سی کی کشمیر کاز کے لیے مستقل اور غیر متزلزل حمایت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے جو کہ او آئی سی کے ایجنڈے کا مرکز ہے۔ او آئی سی نے بھارت کی جانب سے کشمیری عوام کے انسانی حقوق کی سنگین اور منظم خلاف ورزیوں کی واضح الفاظ میں مذمت کی ہے اور اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں میں درج کشمیریوں کے حق خودارادیت کو مضبوطی سے برقرار رکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نگرانی اور رپورٹنگ پر او آئی سی کے آزاد مستقل انسانی حقوق کمیشن کے سٹینڈنگ میکانزم کی توجہ کو بھی سراہتا ہے، مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال بدستور گہری تشویش کا باعث ہے۔ ناجائز قبضے اور وحشیانہ جبر کی یہ داستان 78 سال قبل 1947 میں شروع ہوئی اور آج تک جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت کے 5 اگست 2019 کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو اب 5 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، جس کا مقصد جموں و کشمیر کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ حیثیت اور مقبوضہ علاقے کے آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل کرنا ہے۔

اس عرصے کے دوران کشمیریوں کو طویل کرفیو، دوہرے لاک ڈائون، من مانی گرفتاریاں، تشدد، ماورائے عدالت قتل، انٹرنیٹ بند، انسانی حقوق کے کارکنوں کو ڈرانے دھمکانے اور میڈیا پر کریک ڈائون کا نشانہ بنایا گیا۔اس کے علاوہ، بھارت اپنے آباد کاری کے نوآبادیاتی منصوبے کے ذریعے اپنی سرزمین پر مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، بھارتی وزراءبھی اکثر پاکستان سے آزاد کشمیر اور جی بی کو زبردستی چھیننے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔

سہیل محمود نے عالمی برادری کو تنازعات کے انتظام سے آگے بڑھنے اور تنازعات کے حل کے لئے کوششیں کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر تنازعہ کے منصفانہ اور دیرپا حل کے بغیر جنوبی ایشیا میں پائیدار امن حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ قبل ازیں ڈائریکٹر انڈیا سٹڈی سنٹر ڈاکٹر خرم عباس نے کہا کہ جنگیں مہنگی ہوتی ہیں، اس سلسلے میں روس۔

یوکرین تنازعہ ایک اہم مثال ہے، اب تک یوکرین کو 180 ارب ڈالر سے زیادہ کا انفراسٹرکچر کا براہ راست نقصان ہوا ہے اور اسے تعمیر نو کے لیے 524 بلین ڈالر کی ضرورت ہوگی، اس لیے تنازعات کے پرامن حل کی ضرورت ہے۔ غلام محمد صفی نے بے آوازوں کی آواز بننے اور جموں و کشمیر کے لوگوں کو حق خودارادیت کے لیے آواز اٹھانے کے لیے پلیٹ فارم فراہم کرنے پر او آئی سی کا شکریہ ادا کیا، مسئلہ کشمیر سات دہائیوں سے زائد عرصے تک حل نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے اقوام متحدہ کے مفلوج ادارے، بڑی طاقتوں کے ناروا رویے اور بھارت کی ہٹ دھرمی کو کشمیری عوام کی حالت زار کا ذمہ دار قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ بھارت ہی اس معاملے کو اقوام متحدہ میں لے گیا، اقوام متحدہ نے کشمیری عوام کو استصواب رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا، بڑی طاقتوں میں سے ایک کی طرف سے ویٹو کا استعمال بھی اس تنازعہ کے حل نہ ہونے کا نتیجہ ہے، جموں و کشمیر کے عوام ایسے حل کا مطالبہ کرتے ہیں جو پائیدار، پرامن اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر مبنی ہو۔

انہوں نے زور دیا کہ کشمیر پر مستقبل میں ہونے والی کسی بھی بات چیت میں کشمیری نمائندوں کو شامل کیا جانا چاہیے جو تنازعہ کے اہم فریق ہیں۔ الطاف حسین وانی نے کہا کہ او آئی سی جموں و کشمیر کے عوام کے لیے امید کی کرن ہے، کشمیر کوئی علاقائی تنازعہ نہیں ہے۔ اس کے بجائے یہ انسانی حقوق اور حق خود ارادیت کا سوال ہے، بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں مذہبی جبر اور معاشی پسماندگی بھارت کے انضمام اور ترقی کے دعووں کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف بھارت نے وقف ترمیمی ایکٹ کے ذریعے مسلمانوں کے مذہبی اداروں پر ریاستی کنٹرول کے ساتھ ساتھ عید اور جمعہ کی نماز پر منظم پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور دوسری طرف ہندو زائرین کو سہولتیں فراہم کر رہا ہے، یہ مذہبی امتیاز کے رنگ برنگے ڈھانچے کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی کے پہلے نو مہینوں میں بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کو 5.3 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔

اس کے بعد بھارت نے جموں و کشمیر کے لیے بجٹ کی مختص رقم کو بھی کم کردیا، 2019 میں بے روزگاری کی شرح 16.29 فیصد تھی اور 2024 میں یہ 28.2 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں محاصرے اور تلاشی کی کارروائیاں بلا روک ٹوک جاری ہیں۔ تقریب کے اختتام پر سوال و جواب کا سیشن اور سرٹیفکیٹ دینے کی تقریب ہوئی۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر یوتھ فورم فار کشمیر زمان باجوہ نے فیلوشپ پروگرام کے نوجوان شرکاءپر زور دیا کہ وہ اپنی تحریروں اور دیگر علمی سرگرمیوں کے ذریعے کشمیر کے کاز کو آگے بڑھائیں۔