Live Updates

آئی ایم ایف کا آخری پروگرام تبھی ہو سکتا ہے کہ جب سٹرکچرل ریفارمز ہوں، محمد اورنگزیب

تنخواہ دار طبقے کی زندگی کو سادہ اور آسان بنانے کی کوشش جاری ہے،ہماری کوشش ہے حکومت کو جس کاروباری معاملات سے نکال سکتے ہیں نکال دیں، ملک اب نجی شعبے کو چلانا ہے، وفاقی وزیرخزانہ کاایف پی سی سی آئی میں بزنس کمیونٹی سے خطاب

Faisal Alvi فیصل علوی بدھ 30 اپریل 2025 15:20

آئی ایم ایف کا آخری پروگرام تبھی ہو سکتا ہے کہ جب سٹرکچرل ریفارمز ہوں، ..
کراچی(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔30اپریل 2025)وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام تبھی ہو سکتا ہے کہ جب سٹرکچرل ریفارمز ہوں، ہماری کوشش ہے حکومت کو جس جس کاروباری معاملات سے نکال سکتے ہیں نکال دیں، ملک اب نجی شعبے کو چلانا ہے،کراچی میں ایف پی سی سی آئی میں بزنس کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ تنخواہ دار طبقے کی زندگی کو سادہ اور آسان بنانے کی کوشش جاری ہے۔

70 سے 80 فیصد تنخواہ دار طبقے کی سیلری اکاو¿نٹ میں گرتے ہی ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے۔ہم چاہتے ہیں سیلری کلاس کو ٹیکس ایڈوائزرز کی ضرورت نہ رہے، ان کا فارم 9 سے 10 خانوں پر مشتمل ہو، اس میں بھی آٹوفل کے آپشن والے خانے شامل ہوں۔انہوں نے کہا کہ وہ کل ہی امریکہ سے پاکستان پہنچے ہیں۔

(جاری ہے)

ایک ہفتے میں 70 سے زائد ملاقاتیں کیں گئیں۔ ملٹی لٹرل پارٹنرز عالمی مالیاتی اداروں کے نمائندوں کے علاوہ دوست ملکوں کے نمائندوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔

امریکہ کے سینئر انتظامی عہدے داران کے ساتھ ملاقاتیں ہوئیں۔ چین، برطانیہ ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے نمائندوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ پاکستان میں معاشی استحکام دنیا کے سامنے ہے۔ درآمدات میں اضافہ بڑا مسئلہ ہے۔ ان شاءاللہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا تاہم یہ اسی صورت ممکن ہوگا جب ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر عمل کیا جائے گا۔

24 کروڑ لوگوں کو ملک چلانے کیلئے ہمیں ٹیکس ریونیو چاہیے۔ وفاقی وزیرخزانہ نے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ ہماری کوشش ہے ٹیکس اتھارٹی میں اصلاحات لائی جائیں۔ بزنس کمیونٹی کہتی ہے کہ ہم مزید ٹیکس دینے کو تیار ہیں لیکن ہم ٹیکس اتھارٹی سے ڈیل نہیں کرنا چاہتے تاہم یہ قابل عمل نہیں کیونکہ ہم 30 سے 40 لاکھ لوگوں کا ملک نہیں ہیں۔ٹیکس سے استثنیٰ کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

مینوفیکچرنگ سیکٹر سمیت ہر وہ شعبہ جات جو برآمدات کرتا ہے اور آمدنی کماتا ہے اسے ٹیکس نیٹ میں آنا ہو گا۔ ہم آئی ایم ایف پروگرام میں ہیں ہم اس بجٹ میں کیا کرسکتے ہیں کیا نہیں کر سکتے یہ سب بھی دیکھنا ہے، بطور عوام خادم ہم نے سب شراکت داروں کے پاس جانا ہے کہ آپ اپنی سفارشات بھی دیں، ایسا نہیں کہ ان سفارشات کو ردی میں ڈال دیا جائے گا۔

معاشی استحکام کی مثال نہیں ملتی۔ زرمبادلہ کا استحکام آیا ہے۔ بہت عرصے بعد جاری کھاتا پورے سال کا فاضل ہوگا، فسکل سائڈ پر بھی توازن آچکا ہے۔ فسکل سرپلس میں صوبوں نے بھی کردار ادا کیا۔ افراط زر میں کمی بھی کامیابی کی کہانی ہے۔ پالیسی ریٹ میں ایک ہزار بیسس پوائنٹس کمی آ چکی۔امریکہ میں ہونے والی ملاقاتوں میں معاشی استحکام ہر بات ہوئی جس میں ہر کسی نے ہماری کارکردگی کو سراہا۔

ہم ڈیٹا اور جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے ٹیکسیشن میں انسانی مداخلت کو کم سے کم سطح پر لانے کیلئے کام کر رہے ہیں تاکہ ہراسمنٹ کا عنصر ختم ہوجائے اور جو لوگ آجاتے ہیں کہ اتنے نہیں اتنے کرلیں یہ مسئلہ ختم ہوجائے گا۔محمد اورنگزیب کا یہ بھی کہنا تھا کہ ٹیکس گزاروں کا ٹیکس اتھارٹیز پر اعتماد بڑھانا اور پراسیس کو آسان بنانا ہوگا۔اینڈ ٹو اینڈ ڈیجیٹلایزہشن کی کوشش ہے۔

انسانی مداخلت کو کم سے کم کرنا چاہتے ہیں۔ ڈیٹا کے زریعے ٹیکس بیس کو بڑھانا چاہتے ہیں۔ ٹیکس گزاروں کے ساتھ ڈیٹا کی بنیاد پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ کابینہ نے منظوری دے دی تھی کہ ٹیکس پالیسی آفس کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے الگ رکھا جائے گا وہ فنانس ڈویژن کو رپورٹ کرے گا۔ جب کوئی نیا کاروبار شروع کرتا ہے تو 5 سے 15 سال کے معاملات سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کرتا ہے لیکن ہم بجٹ ایک سال کیلئے اخراجات اور آمدنی کو دیکھتے ہوئے بناتے ہیں۔آئندہ تسلسل کے ساتھ بزنس کمیونٹی کیلئے ٹیکس پالیسی آفس سارے معاملات دیکھے گا۔ ایف بی آر کلیکشن پر فوکس کرے گا۔ ایف بی آر کا پالیسی کے ساتھ آخری سال بجٹ میں ہے اس کے بعد ان کاکردار ختم ہوجائے گا۔
Live پہلگام حملہ سے متعلق تازہ ترین معلومات