اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 مئی 2025ء) امدادی حکام کا کہنا ہے کہ غزہ پٹی میں خوراک کے گوداموں اور کمیونٹی باورچی خانوں کی لوٹ مار میں اضافہ بڑھتی ہوئی مایوسی کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ اسرائیل کی جانب سے اس فلسطینی علاقے میں اشیائے خوراک کی فراہمی بند کیے جانے کے دو ماہ بعد خوراک کی قلت سنگین ہو چکی ہے۔
فلسطینی باشندوں اور امدادی حکام کا کہنا ہے کہ بدھ 30 اپریل کو غزہ میں کمیونٹی باورچی خانے، تاجروں کی دکانوں اور اقوام متحدہ کے فلسطینی پناہ گزینوں کے ادارے (یو این آر ڈبلیو اے) کے مرکزی کمپلیکس سمیت لوٹ مار کے کم از کم پانچ واقعات پیش آئے۔
غزہ پٹی میں ’ایک نیا جہنم برپا‘ ہے، بین الاقوامی ریڈ کراس
اسرائیل غزہ پٹی کے لیے امداد کو بطور ’جنگی ہتھیار‘ استعمال کر رہا ہے، فلسطینی عہدیدار
تقریباﹰ 19 ماہ قبل شروع ہونے والی فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے ساتھ جنگ میں اسرائیلی افواج غزہ بھر میں اپنی فضائی اور زمینی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
(جاری ہے)
’لوٹ مار، حالات کی سنگینی کا اشارہ‘
غزہ میں فلسطینی غیر سرکاری تنظیموں کے نیٹ ورک (پی این جی او) کے ڈائریکٹر امجد الشوا نے کہا، ''لوٹ مار اس بات کا ایک سنگین اشارہ ہے کہ غزہ پٹی میں حالات کتنے سنگین ہو چکے ہیں … بھوک کا پھیلاؤ، مقامی رہائشیوں میں نا امیدی کے ساتھ ساتھ قانون کی عدم موجودگی۔
‘‘فلسطینیوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے یو این آر ڈبلیو اے کے ایک سینئر عہدیدار لوئس واٹرج نے بتایا کہ ہزاروں بے گھر افراد بدھ کی رات غزہ شہر میں قائم یو این آر ڈبلیو اے کے کمپلیکس میں گھس گئے اور اس کی فارمیسی سے ادویات چوری کیں اور گاڑیوں کو نقصان پہنچایا۔
واٹرج کے بقول، ''لوٹ مار، اگرچہ افسوسناک ہے، لیکن مکمل طور پر نظام کی تباہی کے پیش نظر حیرت انگیز نہیں ہے۔
ہم طویل محاصرے اور تشدد کے ذریعے گھٹنوں پر لائے جانے والے معاشرے کے نتائج دیکھ رہے ہیں۔‘‘حماس نے جنوری میں جنگ بندی کے نفاذ کے بعد غزہ بھر میں ہزاروں پولیس اور سکیورٹی فورسز کو تعینات کیا تھا، لیکن مارچ میں اسرائیل کی جانب سے بڑے پیمانے پر حملے دوبارہ شروع کیے جانے کے بعد سے اس کی مسلح موجودگی میں تیزی سے کمی آئی ہے۔
غزہ میں حماس کے زیر انتظام سرکاری میڈیا آفس کے ڈائریکٹر اسماعیل الثوابتہ نے لوٹ مار کے واقعات کو ''انفرادی عمل‘‘ قرار دیا، جو ان کے بقول فلسطینی عوام کی اقدار اور اخلاقیات کی عکاسی نہیں کرتے۔
انہوں نے کہا کہ نشانہ بنائے جانے کے باوجود غزہ کے حکام ''ان واقعات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور ان سے اس انداز میں نمٹ رہے ہیں، جو نظم و نسق اور انسانی وقار کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
‘‘بچوں میں غذائی قلت
الثوابتہ کا کہنا تھا کہ اسرائیل، جس نے دو مارچ سے غزہ میں طبی ساز و سامان، ایندھن اور خوراک کی فراہمی پر پابندی عائد کر رکھی ہے، اس کا ذمہ دار ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کے اس اقدام کا مقصد حماس پر دباؤ ڈالنا ہے تاکہ وہ یرغمالیوں کو رہا کرے کیونکہ جنگ بندی کا معاہدہ تعطل کا شکار ہے۔
اسرائیل اس سے قبل اس بات کی تردید کر چکا ہے کہ غزہ کو بھوک کے بحران کا سامنا ہے۔
یہ واضح نہیں کیا گیا کہ غزہ پٹی کو امداد کی ترسیل کب اور کیسے بحال کی جائے گی؟اسرائیلی فوج حماس پر امداد منتقل کرنے کا الزام عائد کرتی ہے، جس کی حماس تردید کرتی ہے۔
اقوام متحدہ نے اس ہفتے کے اوائل میں خبردار کیا تھا کہ غزہ پٹی کے بچوں میں غذائی قلت بڑھتی جا رہی ہے۔
کمیونٹی باورچی خانے، جو لاکھوں فلسطینیوں کے لیے زندگی کی حیثیت رکھتے ہیں، رسد کی کمی کی وجہ سے بند ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں اور لوٹ مار سے اضافی خطرے کا سامنا ہے۔
غزہ میں فلسطینی غیر سرکاری تنظیموں کے نیٹ ورک (پی این جی او) کے ڈائریکٹر امجد الشوا نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ''اس سے کمیونٹی باورچی خانوں کی طرف سے بڑی تعداد میں خاندانوں کو کھانا فراہم کرنے کی صلاحیت متاثر ہو گی اور یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ حالات غیر معمولی طور پر مشکل سطح پر پہنچ چکے ہیں۔‘‘
فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک 52 ہزار سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔
اس تنگ ساحلی علاقے کا بیشتر حصہ ملبے میں تبدیل ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے لاکھوں افراد خیموں یا بمباری سے تباہ شدہ عمارتوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
غزہ پٹی میں جنگ کا آغاز سات اکتوبر 2023 کو حماس کی زیر قیادت ہزاروں مسلح فلسطینی عسکریت پسندوں کی طرف سے جنوبی اسرائیل میں اس دہشت گردانہ حملے کے بعد ہوا تھا، جس میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے جبکہ 251 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
ادارت: امتیاز احمد، مقبول ملک