Live Updates

پاک بھارت کشیدگی: سوشل میڈیا پر میمز کا ’طوفان‘ برپا

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 2 مئی 2025 21:00

پاک بھارت کشیدگی: سوشل میڈیا پر میمز کا ’طوفان‘ برپا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 مئی 2025ء) پاکستان اور بھارت کے مابین جاری حالیہ کشیدگی میں جنگ کے سنجیدہ خطرات منڈلا رہے ہیں اور دونوں جانب کی افواج اس وقت ہائی الرٹ پر ہیں لیکن ایسے میں بھی دونوں ملکوں میں کچھ لوگ خوف زدہ ہونے کی بجائے جنگی صورتحال پر مزاحیہ تبصرے، دلچسپ میمز اور لطیفے تخلیق کر رہے ہیں۔

حالانکہ سندھ طاس معاہدے کی معطلی، تمام دوطرفہ سرحدی راستوں سمیت فضائی حدود کی بندش، ویزہ کی پابندیوں میں مزید سختی، دونوں جانب کے سفارتی عملے میں کمی اور ایل او سی پر مسلسل گولہ باری کا تبادلہ چند ایسے اقدامات ہیں، جو کسی بھی طور پر غیر سنجید نہیں لیے جاسکتے۔

لیکن ان بظاہر کٹھن اور پریشان کن حالات میں بھی پاکستان کی آبادی کے ایک چھوٹے سے حصے نے جنگ کے حوالے سے مزاحیہ پوسٹوں اور میمز کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، جس کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید ایسے پاکستانیوں کو جنگ کا کوئی خوف نہیں ہے اور وہ پرسکون انداز میں اپنا ''شغل میلہ‘‘ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

(جاری ہے)

'نان فائلر، فرنٹ لائن پر'

سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز پر ایک صارف نے لکھا، ''نان فائلرز کو جنگ کی صورت میں جنگ کے اگلے مورچوں پر بھیجنے کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا ہے۔

‘‘ ایک اور دلچسپ میم میں ایک بچے نے جب اپنی امی کو بتایا کہ پاک بھارت جنگ لگنے والی ہے اور اس پر اس بچے کی ماں نے پنجابی زبان میں کہا،'' اللہ کرے کہ پہلا بم تاڈے موبائل فوناں نوں وجے‘‘ یعنی اللہ کرے کہ پہلا بم تمھارے موبائل فونز پر گرے۔ سوشل میڈیا پر گردش کر تی ایک میم میں سموسوں کی ایک ایسی دکان دکھائی گئی ہے، جس پر لگے ایک بورڈ پر جلی حروف یہ تحریر رقم ہے، ''ایٹم بم سموسے، میزائلی رائتے کے ساتھ‘‘

ایک اور پوسٹ بھارت سے کراچی فتح کرنے کے لیے آنے والے اس بھارتی فوجی کی بے بسی کو ظاہر کر رہی ہے، جس میں ایک مقامی نوجوان بھارتی فوجی کو اپنا موبائل اس کے حوالے کرنے کا کہہ رہا ہے، جو دراصل کراچی میں اسٹریٹ کرائمز کی سنگینی کی جانب ایک اشارہ ہے۔

کچھ پوسٹوں پر بچے پانی کی بجائے یونیورسٹی کے بند ہونے کے متمنی ہیں، ایک من چلے صارف نے اپنی پوسٹ میں لکھا، ''بھارت اور ہندوستان مل کر بھی پاکستان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے تو یہ انڈیا کیا چیز ہے۔‘‘ ایک صارف نے اپنا غصہ اپنی پوسٹ پر یہ تحریر درج کرکے نکالا،'' آپ کا خوش رہنا ہی آپ کا برا چاہنے والوں کے لیے سب سے بڑی سزا ہے۔

‘‘

پاکستانی سوشل میڈیا پر مہشور ہونے والی ایک اور میم میں ایک صارف نے پاکستان اور بھارت کے مابین کرکٹ کے میدان میں جاری مسابقت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’’ پاک بھارت جنگ دبئی میں ہو گی۔‘‘

جنگ کے خطرات میں بھی ہنسی مذاق کیوں؟

ایسا کیوں ہے کہ پاکستان میں موجود یہ لوگ جنگ سے خوف زدہ نہیں ہیں، کیا انہیں جنگ کی تباہ کاریوں کا اندازہ نہیں یا پھر وہ اپنی پریشانیوں کو دور کرنے کے لیے ہنسی مذاق سے مدد لے رہے ہیں۔

ممتاز ماہر سیاسیات ڈاکٹر حسن عسکری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دو ایٹمی ملکوں میں جنگ ایک نہایت ہی سنجیدہ اور پریشان کن مئسلہ ہے اس پر خوش ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ان کے نزدیک، ''یہ کام ایسے لوگوں کا ہو سکتا ہے، جو ہر بات کو ہنسی مزاق کا رنگ دے کر ریٹنگ لینے کے چکر میں ہوں۔‘‘

پاکستان میں نفسیاتی امور کی ممتاز ماہر اور پنجاب یونیورسٹی کی معلمہ پروفیسر ڈاکٹر رافعہ رفیق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہمارے لوگوں نے پچھلے کچھ سالوں میں یوکرین اور غزہ سمیت کئی تنازعات کے حوالے سے اتنا کچھ میڈیا کے ذریعے دیکھا اور سنا ہے کہ اب ان کے دماغوں نے جنگ کو تسلیم کر لیا ہے۔

ان کا کہنا تھا، ''ان میں جنگوں کے لیے حساسیت باقی نہیں رہی۔ اور یہ ان کے لیے ایک نیا نارمل ہے۔ ایسی ہی صورت حال ہم نے کورونا کی عالمی وبا کے آخری دنوں میں بھی دیکھی تھی۔‘‘ ڈاکٹر رافعہ رفیق نے کا مزید کہنا تھا، '' پاکستانی آبادی کی اکثریت اس وقت اپنے بنیادی مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کر رہی ہے اس کا دوسرے مسائل کی جانب دھیان ہی نہیں ۔

'شیر آیا شیر آیا‘ کی گردان سننے کے بعد لوگ یہی سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ اب شیر آ ہی جائے تو دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر رافعہ رفیق بتاتی ہیں کہ ہمارے ہاں پریشانی میں لوگ یا تو مذہب کا سہارا لیتے ہیں، جیسا کہ آج کل کچھ لوگ امن و سلامتی کی دعائیں کر رہے ہیں اور بعض لوگ دکھوں اور پریشانیوں کو ہنسی مذاق میں ڈال کر صورت حال سے چھٹکارہ چاہیتے ہیں یہ دونوں سٹریس سے بچنے کے مروجہ طریقے ہیں، جو ہم اب بھی دیکھ رہے ہیں۔

پریشانیوں سے چھٹکارے کے راستے

سینئر صحافی محمود شام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستانیوں نے یورپ کی طرح کئی کئی سالوں کی جنگیں نہیں دیکھیں صرف سرحدی علاقوں میں پندرہ سترہ دنوں کی جنگ سے جنگ سے پیدا کردہ تکالیف کا درست اندازہ نہیں ہوتا۔ اس سینئر صحافی کا کہنا تھا، '' عوام تو عوام ہیں جو بیانات بلاول بھٹو اور خواجہ آصف دے رہے ہیں۔

ان پر بھی ذرا غور کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ بھٹو اور ایوب دور کو یاد کرکے ان کا موازنہ آج کے لیڈروں سے کرتے ہیں۔‘‘

محمود شام کے بقول عوام کا جوش بڑھانے کے لیے ابھی تک کوئی نیا ملی نغمہ یا جنگی ترانہ بھی نہیں آیا۔'' ویسٹ میں جنگ کے دوران دشمن ملک کے لیڈروں کی کارٹونز بنانے کی بھی روایت رہی ہے۔ 1965ء میں سوشل میڈیا تو نہیں تھا لیکن ''جنگ کھیڈ نئیں ہندی زنانیاں دی‘‘ یعنی جنگ عورتوں کا کھیل نہیں ہوتا، جیسے فقروں سے سمجھا جا سکتا تھاکہ یہ کس حکمران خاتون کی طرف اشارہ تھا۔

‘‘

اسما تنویر نامی ایک طالبہ کا کہنا تھا، '' یہ سارا کام جنریشن زی کر رہی ہے، جو سن دوہزار کے بعد پیدا ہوئی اس نے جنگ کے زخم نہیں دیکھے اور انہیں اسٹریس بھی بہت زیادہ ہے اور وہ عارضی طور پر ایسی میمز بنا کر خود کو کسی متوقع خطرے کی پریشانی سے بچانے کے خواہاں ہیں۔‘‘

Live پہلگام حملہ سے متعلق تازہ ترین معلومات