اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 مئی 2025ء) یورپی یونین نے اسرائیل کے مجوزہ نئے امدادی نظام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل غزہ پٹی کا محاصرہ فوری طور پر ختم کرے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب گزشتہ نو ہفتوں سے جاری ناکہ بندی کی وجہ سے غزہ پٹی میں امدادی سامان کی رسائی کے تمام تر راستے مسلسل مسدود ہیں۔
اقوام متحدہ سمیت متعدد بین الاقوامی اور امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ غزہ پٹی میں خوراک، پینے کے صاف پانی اور ادویات کی قلت کے باعث وہاں کے عوام شدید مشکلات اور تکالیف میں مبتلا ہو چکے ہیں۔
اس صورتحال میں یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ کایا کالاس، کرائسس مینجمنٹ کمشنر حاجہ لحبیب اور کمشنر برائے بحیرہ روم دوبرافکا شوئیسا نے ایک مشترکہ بیان میں کہا، ''ایک قابض طاقت ہونے کے ناطے اسرائیل پر بین الاقوامی قانون کے تحت یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ انسانی بنیادوں پر امداد ضرورت مند آبادی تک پہنچنے دے۔
(جاری ہے)
اس بیان میں فوری جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ چار مئی کو اسرائیل کی جانب سے منظور کیے گئے نئے امدادی نظام پر بھی گہری تشویش ظاہر کی گئی ہے۔
یورپی یونین کا کہنا ہے کہ یہ نیا نظام ہیومینیٹیرین اصولوں کی خلاف ورزی ہے کیونکہ اس کے تحت امدادی سامان کی ترسیل کا کام نجی سکیورٹی کمپنیوں کے سپرد کیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل کے اس منصوبے کو اقوام متحدہ اور دیگر امدادی ادارے پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں۔اسرائیل کا نیا منصوبہ خطرناک ہے، یورپی ممالک
چھ یورپی ممالک نے غزہ پٹی کے لیے نئے اسرائیلی منصوبے کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دراصل تشدد کو ہوا دے گا۔
اسپین، آئس لینڈ، آئرلینڈ، لکسمبرگ، ناروے اور سلووینیہ کے وزرائے خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ غزہ پٹی میں کسی بھی قسم کی آبادیاتی یا علاقائی تبدیلی کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔
اس بیان میں انتباہ کیا گیا ہے، ''اسرائیل کا منصوبہ جنگ میں ایک نئی اور خطرناک شدت کا سبب بنے گا۔ اسرائیلی سکیورٹی کابینہ نے اسی ہفتے ایک ایسے منصوبے کی منظوری دی، جس کے تحت حماس کے خلاف کارروائیوں میں وسعت لانے کے علاوہ غزہ پٹی کی آبادی کو وہاں سے منتقل کرنے اور غزہ پر مکمل 'قبضے‘ کی بات کی گئی ہے۔‘‘
اسرائیلی منصوبے پر اقوام متحدہ کی طرف سے شدید تنقید
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر نے بدھ کے روز گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غزہ پٹی میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کو وسعت دینے سے اس علاقے میں فلسطینیوں کے 'وجود‘ کو ایک مسلسل خطرہ لاحق ہو جائے گا۔
ہائی کمشنر فولکر ترک نے مزید کہا، ''اس منصوبے کے ممکنہ نتائج نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہوں گے بلکہ فلسطینی عوام کے اجتماعی وجود کے لیے بھی خطرہ بن جائیں گے۔‘‘
فولکر نے کہا کہ 'شہری آبادی کو بطور جنگی ہتھیار بھوک کا شکار بنانا، جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے‘ اور یہ کہ 'اس بحران کا واحد دیرپا حل بین الاقوامی قوانین کی مکمل پاسداری میں ہی ہے‘۔
غزہ میں حماس کے خلاف اسرائیلی کارروائیاں جاری
اٹھارہ مارچ کو ختم ہونے والی عبوری جنگ بندی کے بعد اسرائیلی دفاعی افواج حماس کے جنگجوؤں کے خلاف فوجی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ غزہ پٹی میں حماس کے طبی ذرائع کا کہنا ہے کہ سیزفائر کی ناکامی کے بعد سے اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد اب ڈھائی ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔
غزہ میں حماس کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر سن دو ہزار تیئیس کو شروع ہونے والے اس تنازعے کے نتیجے میں غزہ پٹی میں مجموعی ہلاکتوں کی تعداد اب 52,615 ہو چکی ہے۔
غزہ پٹی میں اسرائیلی حملوں کا آغاز سات اکتوبر 2023ءکے اس دہشت گردانہ حملے کے فوری بعد ہوا تھا، جس میں فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس نے اسرائیلی سرزمین پر حملے کرتے ہوئے بارہ سو سے زائد افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
یورپی یونین، امریکہ اور متعدد ممالک حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔اس حملے کے دوران یہ جنگجو 251 افراد کو یرغمال بنانے میں بھی کامیاب ہو گئے تھے، جن میں سے 58 تاحال غزہ میں حماس کی قید میں ہیں۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ان میں سے 34 ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ تازہ فوجی کارروائی کا مقصد حماس پر دباؤ ڈال کر باقی یرغمالیوں کو رہا کروانا ہے تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے یرغمالیوں کی جانوں کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
ادارت: شکور رحیم ، مقبول ملک