وباء کے دنوں میں ہیرو بن کر ابھرنے والوں کی عالمی رہنماؤں سے توقعات

یو این منگل 20 مئی 2025 00:00

وباء کے دنوں میں ہیرو بن کر ابھرنے والوں کی عالمی رہنماؤں سے توقعات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 20 مئی 2025ء) مستقبل کی ممکنہ وباؤں سے بہتر طور پر نمٹنے کے لیے آج جنیوا میں ایک نئے معاہدے کے لیے بات چیت شروع ہو رہی ہے۔ اس موقع پر کووڈ۔19 وبا میں لوگوں کی صحت و زندگی کو تحفظ دینے کے لیے بہادرانہ کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اب عالمی رہنماؤں کے لیے اپنی ذمہ داری نبھانے کا وقت ہے۔

اقوام متحدہ مستقبل کی وباؤں کو روکنے کی کوششوں میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔

آج سے سوئزرلینڈ کے شہر جنیوا میں شروع ہونے والی ورلڈ ہیلتھ اسمبلی میں آئندہ ممکنہ وباؤں سے مقابلے کی تیاری کے معاہدے کے مسودے کو حتمی شکل دی جائے گی۔

اس مسودے میں طبی معلومات کے تبادلے، ویکسین اور علاج معالجے کے لیے درکار سامان تک مساوی رسائی اور مضبوط نظام ہائے صحت کے وعدے کیے گئے ہیں جو کووڈ۔

(جاری ہے)

19 وبا کے بدترین اثرات کا سامنا کرنے والوں کی خواہش اور مطالبہ رہے ہیں۔

2020 میں جب یہ وبا عروج پر تھی تو یو این نیوز نے ایسے بہت سے گمنام بہادروں سے بات کی جنہوں نے انتہائی مشکل مسائل کا جرات اور عزم سے سامنا کیا۔ ان میں ڈاکٹر، سماجی سطح پر وبا کے بارے میں آگاہی بیدار کرنے والے لوگ، ایک صحافی، ایک نوجوان رضاکار اور قدیمی مقامی لوگوں کے ایک رہنما شامل ہیں۔

آج پانچ سال کے بعد ان کے پاس وبا کی تکلیف دہ یادوں کے ساتھ مستقبل میں ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے دانائی بھی ہے۔

یو این نیوز نے ان لوگوں سے رابطہ کیا جن کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وباؤں کے سامنے دنیا کا کیا کچھ داؤ پر لگا ہے۔

مارگریٹا کیسٹریلن، ماہر امراض اطفال، بیونس آئرس، ارجنٹائن

2020 میں بیونس آئرس میں رہنے والی ڈاکٹر مارگریٹا کیسٹریلن اپنے کلینک پر معمول سے زیادہ کام کر رہی تھیں۔ جب ارجنٹائن میں کووڈ۔19 وبا پھیلی تو انہوں نے طبی نقل و حمل کے شعبے میں اپنی رضاکارانہ خدمات بھی پیش کیں۔

وہ ایمبولینس گاڑیوں میں مریضوں کی شہر بھر کے ہسپتالوں میں منتقلی کے کام میں مدد دیتی تھیں جن میں میں بہت سے کووڈ۔19 کے مشتبہ مریض بھی ہوتے تھے۔

Personal archive
ڈاکٹر مارگریٹا کیسٹریلن اپنے کلینک پر مصروف عمل۔

ایک دن ایسے ہی طویل اور تھکا دینے والے کام کے بعد انہوں نے اپنے اپارٹمںٹ کی عمارت میں لفٹ پر ہاتھ سے لکھا ایک پیغام چسپاں دیکھا۔

اس پر تحریر تھا 'میں 7ویں فلور پر رہنے والی وکٹوریا ہوں۔ اگر آپ کو کھانے پینے کے سامان یا کسی مدد کی ضرورت ہو تو میرے دروازے پر گھنٹی بجائیں۔'

وہ کہتی ہیں کہ دن بھر کڑی محنت کے بعد یہ پیغام پڑھ کر ان کا دل خوشی سے معمور ہو گیا۔

انہوں نے سوچا کہ 'دنیا میں اچھے لوگوں کی تعداد بروں سے زیادہ ہے۔' ہمدردی کا جذبہ فتحیاب ہو رہا تھا۔

ڈاکٹر کیسٹریلن وبا کے دوران کئی طرح کے کردار ادا کر رہی تھیں۔ وہ اپنے کلینک پر کام کرتیں، ایمبولینس گاڑیوں میں خدمات انجام دیتیں اور یونیورسٹی میں پڑھاتی تھیں جبکہ یہ سب کچھ کرتے ہوئے وہ اپنی کمسن بیٹی کی پرورش بھی کر رہی تھیں۔

اس وقت کے بارے میں سوچ کر انہیں رونا آ جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر دوبارہ ایسے حالات درپیش ہوں تو شاید وہ یہ سب کچھ نہیں کر پائیں گی۔

وہ روزانہ خوف کے عالم میں گھر واپس آتی تھیں۔ بیونس آئرس کی گرمی میں مکمل حفاظتی لباس پہننے کی یاد ان کے دل و دماغ پر نقش ہے۔ ان کا شمار ایسے بہادروں میں ہوتا ہے جنہوں نے 24 گھنٹے کام کیا، اپنے بیمار ساتھیوں کی کمی پوری کی اور کھانے پینے یا ایک دوسرے سے بات چیت کی پروا کیے بغیر اپنے کام میں منہمک رہے۔

تاہم اس تمام تجربے نے انہیں ایک غیرمتوقع تحفہ بھی دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنی بیٹی کو گھر پر پڑھنے لکھنے کی تربیت دی۔ وہ مزید بہتر ماں بن گئیں اور اپنے خاندان اور حقیقی دوستیوں کی پہلے سے زیادہ قدر کرنے لگیں۔

وبا نے ان کا طبی معمول بھی مستقل طور پر تبدیل کر دیا۔ اب وہ ہر مریض کو دیکھتے ہوئے اپنے چہرےپر ماسک پہنتی ہیں۔

اس طرح دونوں کو تحفظ ملتا ہے۔ علاوہ ازیں، اب ہسپتالوں میں ہاتھ صاف کرنے کا محلول بھی ہر وقت دستیاب ہوتا ہے۔

ڈاکٹر کیسٹریلن آئندہ ممکنہ وباؤں سے بہتر طور پر نمٹنے سے متعلق معاہدے کو بہت ضروری سمجھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وباؤں کے تناظر میں حکومتی سطح پر تعاون اور لوگوں سے محبت کی ضرورت ہے۔ سبھی نے بدترین وقت دیکھا ہے اور ان کے بعض ساتھی اب بھی کووڈ کے اثرات سے نہیں نکلے اور ان پر گھبراہٹ اور بے چینی کے حملے ہوتے ہیں۔

وہ یہ بھی سمجھتی ہیں کہ طبی نظام مضبوط بنانے کے لیے طبی عملے کی خدمات کا اعتراف اور اسے منصفانہ اور بہتر معاوضے کی ادائیگی اہم ہے۔

Leila Erdman
ڈاکٹر ایوگینی پینیلیس۔

ایوگینی پینیلیس، انتہائی نگہداشت کے شعبے میں معالج، بروکلین، نیویارک

2020 کی پہلی سہ ماہی میں جب یو این نیوز نے ڈاکٹر ایوگینی پینیلیس سے بات کی تو وہ نیویارک سٹی میں کووڈ کی پہلی لہر کے ہنگام متواتر کام میں مصروف تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ 'ان کے پاس کووڈ سے بری طرح متاثرہ پہلا مریض 7 مارچ کو آیا۔ اس مہینے کے آخر تک ان کے ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں تمام بستر مریضوں سے بھر چکے تھے۔

شعبے میں معاون طبی عملے پر کام کا بوجھ بہت زیادہ تھا جنہیں بہت سے خطرات مول لے کر بیک وقت پانچ پانچ مریضوں کو دیکھنا پڑتا تھا۔

حفاظتی لباس اور سازوسامان اس قدر کمیاب تھا کہ ڈاکٹر ایوگینی کو یہ چیزیں خود خریدنا پڑیں۔ بہت سے رضاکار بھی حفاظتی سامان عطیہ کر رہے تھے اور ان میں بعض سامان مصدقہ طور پر محفوظ نہیں تھا لیکن اس کی دستیابی بھی غنیمت تھی۔

ڈاکٹر پینیلیس اس تمام بحران کے دوران سوشل میڈیا پر اپنے پیغامات میں دیانت داری اور احتیاط کو مدنظر رکھتے ہوئے صورتحال سے آگاہ کرتے رہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک صبح جب وہ سو کر اٹھے تو سوشل میڈیا پر ان کے ہزاروں نئے فالور بن چکے تھے۔

پانچ سال کے بعد وہ کہتے ہیں کہ 'میں اس بارے میں انتہائی نگہداشت کے شعبے میں کام کرنے والے باقاعدہ ڈاکٹر کی حیثیت سے ہی بات کر سکتا ہوں۔

اگر مختصراً کہوں تو کووڈ میں مجھے احساس ہوا کہ ضرورت پڑی تو میں معمول سے بڑھ کر ہرممکن کام کرنے اور اس بیماری کا سامنا کرنے کو بھی تیار تھا جس کے بارے میں اس وقت کسی کو یہ علم نہیں تھا کہ اس کا علاج کیسے ہو گا۔

ان کا کہنا ہے کہ اس موقع پر لوگوں کا ردعمل ملا جلا تھا۔ ایک جانب بہت سے رضاکار تھے، لوگ مدد دے رہے تھے اور یکجہتی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔

دوسری جانب، سازشی کہانیاں تھیں اور لوگ تھیٹر بند ہونے جیسی معمولی باتوں پر شکایات کر رہے تھے حتیٰ کہ ڈاکٹروں اور سائنس دانوں کی بھی مخالفت ہو رہی تھی۔

ڈاکٹر پینیلیس آئندہ ممکنہ وباؤں سے نمٹنے کی تیاری کے حوالے سے محتاط انداز میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کووڈ۔19 وبا سے نمٹنے کے لیے پہلے سے بھی کم انتظامات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

آئندہ وباؤں کا بہتر طور سے مقابلہ کرنا ممکن ہے اور ایسا ہونا چاہیے۔ تاہم یوں لگتا ہے کہ وبا سے سیکھے جانے والے اسباق وہ نہیں جن کی توقع کی گئی تھی۔ امید ہے کہ دوبارہ ایسا نہیں ہو گا کیونکہ اب وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ آیا وہ پہلے جیسے حالات کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔

© Wuxi People's Hospital
ڈاکٹر چن جِنگ یو 2020 میں وو شی پیپلز ہسپتال کے نائب صدر تھے۔

چن جِنگ یو، پھیپھڑوں کے ٹرانسپلانٹ سرجن، وو شی، چین

2020 میں وو شی پیپلز ہسپتال کے نائب صدر ڈاکٹر چن جِنگ یو نے کووڈ۔19 سے بری طرح متاثرہ مریضوں کے پھیپھڑوں کا ٹرانسپلانٹ کیا۔ ان کا شمار چین میں اس کام کے بڑے ڈاکٹروں میں ہوتا ہے اور وہ ایسے مریضوں کا ٹرانسپلانٹ کرنے والے دنیا کے پہلے ڈاکٹر تھے۔

ان کی ٹیم نے غیرمعمولی حالات میں کام کیا۔

وہ اپنا آپریشن تھیٹر متعدی بیماریوں کا علاج مہیا کرنے والے ہسپتال میں لے گئے جہاں انفیکشن سے بچنے کے لیے انتہائی کڑی احتیاطی تدابیر اختیار کی گئیں۔

ڈاکٹر چن سے بات کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ جب مریضوں کے پھیپھڑوں کو کاٹا گیا تھا تو معالجین کو علم نہیں تھا کہ آیا وہاں وائرس موجود ہو گا یا نہیں۔ لہٰذا، نہایت کڑی احتیاط سے کام لیتے ہوئے یہ آپریشن کیے گئے۔

اس بارے میں نہایت سائنسی نوعیت کی بات چیت ہوئی کہ طبی عملے کا تحفظ کرتے ہوئے زندگیوں کو کیسے بچایا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر چن کہتے ہیں کہ وباؤں سے نمٹنے کا معاہدہ ایک اہم سنگ میل ہو گا۔ یہ عالمگیر طبی انتظام کے لیے فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے ناصرف وباؤں کی روک تھام اور ان کے خلاف بروقت اقدامات ممکن ہوں گے بلکہ یہ بیماریوں کی روک تھام کے ایک مربوط عالمگیر نظام کی تخلیق میں بھی مدد دے گا۔

اس سے جرثوموں کی نگرانی اور ان کے بارے میں معلومات کے تبادلے اور 'ایک دنیا، ایک طبی طریقہ کار' کے تصور کو عملی جامہ پہنانے میں بھی مدد ملے گی۔

دوسری بات یہ کہ، اس معاہدے سے طبی وسائل تک مساوی رسائی کی قانونی ضمانت میسر آئے گی، ادویات اور طبی سازوسامان پر ممالک کی اجارہ داری کا خاتمہ ہو گا اور بیماریوں سے بری طرح متاچرہ مریضوں کی نگہداشت کی صلاحیت کے حوالے سے عالمگیر معیار کو بہتر بنانے میں بھی مدد ملے گی۔

ڈاکٹر چن سمجھتے ہیں کہ کووڈ۔19 وبا سے حاصل کردہ اسباق کو منصفانہ طبی نظام کی تعمیر کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔ جدید طبی ٹیکنالوجی تک رسائی اور اسے استعمال کرنے کی تربیت سے ترقی پذیر ممالک کو سانس کی شدید بیماریوں جیسے طبی مسائل پر قابو پانے اور اموات کی تعداد میں کمی لانے میں مدد ملے گی۔

ان کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی تعاون اور سائنسی اتفاق رائے کے ذریعے وباؤں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمت اور اعتماد میسر آ سکتا ہے۔

© Taily Terena
مارکوس ٹیرانا برازیل کے قدیمی باشندوں کے رہنماء ہیں۔

مارکوس ٹیرانا، قدیمی مقامی لوگوں کے رہنما، برازیل

کووڈ۔19 وبا نے برازیل کے قدیمی مقامی لوگوں کو بہت نقصان پہنچایا جن میں ٹیرانا کے قبیلے زانے کے لوگ بھی شامل تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں وہ صبح اب بھی یاد ہے جب انہیں خبر ملی کہ ان کے ایک چچا زاد بھائی اچانک انتقال کر گئے ہیں۔

یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'اسے کھانسی کا دورہ پڑا اور کچھ دیر کے بعد اس کا انتقال ہو گیا۔

یہ دیکھ کر پوری برادری خوف کا شکار ہو گئی۔ موت سے دو گھنٹے کے بعد اس کی اہلیہ بھی چل بسی جو اس کی لاش کو ہسپتال سے لے کر آئی تھی جبکہ اسے بھی اپنے شوہر کی طرح سانس کی شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ ان حالات میں سبھی گھبرا گئے اور مدد کے لیے دوڑ بھاگ کرنے لگے۔ یہ ایسی بیماری تھی جس کے بارے میں ان کے بڑوں کو بھی علم نہیں تھا کہ اس پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے اور اس کا علاج کیسے ممکن ہے۔

یہ ہوا کے ذریعے آنے والی نئی بیماری تھی جس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا تھا۔

ٹیرانا کے سگے بھائی اور قدیمی مقامی لوگوں کے اولمپک کھیلوں کے بانی کا بھی کووڈ۔19 سے انتقال ہوا۔ بیمار پڑنے پر انہیں ہسپتال لے جایا گیا جہاں سے وہ کبھی نہ لوٹے۔

ٹیرانا سمجھتے ہیں کہ 'ڈبلیو ایچ او' نے لوگوں کو وبا سے تحفظ دینے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔

جب ادارے کو وبا کے خلاف اقدامات میں مرکزی حیثیت حاصل ہوئی تو اس سے اقوام متحدہ کو دنیا بھر کی حکومتوں کے ساتھ تعاون اور ان کی رہنمائی کے حوالے سے نہایت ذمہ دارانہ کردار ملا۔

آج ان کا پیغام بہت واضح اور ہنگامی توجہ کا متقاضی ہے کہ 'ہم روپے پیسے کی بات نہیں کر رہے۔ ہم انسانی بہبود کی بات کر رہے ہیں۔ قدیمی مقامی لوگ کرہ ارض کے تحفظ کی جدوجہد کرتے ہیں۔

زمین ہماری ماں اور ہمارے لیے زندگی کا ذریعہ ہے۔ یہ ہمیں خوراک، تحفظ اور وقار مہیا کرتی ہے۔'

ورلڈ ہیلتھ اسمبلی کے ان کا پیغام یہ ہےکہ 'اقوام متحدہ کو تمام لوگوں کی زندگی اور وقار کے لیے معاہدہ کرنا چاہیے۔

© UNDPIndia/Srishti Bhardwaj
نکھل گپتا انڈیا کے علاقے وارانسی میں اقوام متحدہ کے رضا کار کے طور پر کام کرتے ہٰں۔

نکھل گپتا، اقوام متحدہ کے نوجوان رضاکار، وارانسی، انڈیا

جب انڈیا کے شہر وارانسی میں کووڈ۔19 وبا پھیلی تو اس سے کم از کم 80 ہزار افراد متاثر ہوئے۔ ایسے میں دوردراز دیہات میں رہنے والے ہزاروں خاندانوں کو طبی سہولیات، تعلیم یا بیماری کے بارے میں درست اطلاعات تک رسائی میسر نہیں تھی۔

نکھل گپتا اور ان کی ٹیم نے نچلی سطح پر لوگوں کو طبی تحفظ مہیا کرنے کے لیے تخلیقی اقدامات شروع کیے۔

انہوں نے اقوام متحدہ کے اصول 'کوئی پیچھے نہ رہے' پر چلتے ہوئے گنگا کے نام سے ایک آن لائن رہنما پروگرام تیار کیا جس میں ایک دوستانہ کردار گرمجوشی اور سادگی سے دانائی کی باتیں بتاتا ہے۔ گنگا اس علاقے میں امید کی کرن بن کر سامنے آیا جس سے دیہاتیوں نے صحت و صفائی، تحفظ اور حفاظتی ٹیکوں کے بارے میں آگاہی پائی۔ یہ رہنمائی کئی طرح کی ویڈیو کے ذریعے دی گئی جو نیم کے درختوں تلے لوگوں نے مشترکہ طور پر موبائل فون کی سکرینوں پر دیکھیں۔

نکھل کہتے ہیں 'جب دنیا تھم گئی تو ہم نے قدم آگے بڑھائے۔ جب خوف پھیلا تو ہم نے امید پھیلائی۔'

انہوں نے تعلیمی مقصد کے لیے 'ودیا کی جھونپڑی' بھی قائم کی۔ یہ کاٹھ کباڑ جمع کر کے تیار کیا جانے والا ایک اجتماعی کمرہ جماعت تھا۔ وہاں نکھل کی ملاقات قریبی کچی بستی کے رہنے والے 11 سالہ راجو سے ہوئی جسے سکول تک رسائی میسر نہیں تھی۔ وہ ہر دوپہر کو بوسیدہ چٹائی پر آ کر بیٹھ جاتا حیرت سے کھلی آنکھوں کے ساتھ تختہ سیاہ پر چاک سے لکھنے کی مشق کرتا۔

آج وہ روانی سے پڑھ لکھ سکتا ہے اور استاد بننے کا خواب دیکھتا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ایک دور دراز گاؤں میں اماں شانتی نامی 90 سالہ معمر خاتون لاک ڈاؤن کے دوران کئی ماہ سے گھر میں اکیلی تھیں۔ نکھل کے ساتھی رضاکاروں نے اطلاع ملنے پر ان سے رابطہ کیا اور ان کی متواتر اور مکمل خبر گیری کرتے رہے۔

نکھل گپتا کہتے ہیں کہ مستقبل کی وباؤں سے نمٹنے کا معاہدہ محض تکنیکی نوعیت کا ہی نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس میں شانتی اور راجو جیسے لوگوں کو بھی مدنظر رکھا جائے۔

اس میں مقامی دانائی، رضاکاروں کے نیٹ ورک اور نچلی سطح پر علاج معالجے اور ویکسین کی فراہمی میں مساوات قائم کرنے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ وہ عالمی رہنماؤں کے لیے اپنے پیغام میں کہتے ہیں کہ 'قوانین رہنمائی تو دے سکتے ہیں لیکن اس میں پیار محبت کے جذبے کو مقدم رکھنا ضروری ہے۔

وہ تجویز دیتے ہیں کہ یہ معاہدے کرتے ہوئے تبدیلی لانے والے نوجوانوں کو تعاون مہیا کرنے اور مقامی سطح پر لوگوں کے ذریعے اقدامات کی اہمیت کا اعتراف کرنے کی ضرورت ہے۔

نظام ہائے صحت کو مشمولہ بنانا ہو گا اور ایسی دنیا تعمیر کرنا ہو گی جہاں جب کوئی اور وبا آئے تو یہ روشنی دھیمی نہ پڑے۔ کیونکہ ہر گاؤں میں نکھل موجود ہیں اور ہر نکھل میں ایک نوجوان قیادت کا منتظر ہے۔

ایلیحاندرا کریل، صحافی، میکسیکو سٹی

جب میکسیکو میں کووڈ۔19 وبا پھیلی تو ایلیجاندرا کریل محض اس بحران کے بارے میں اطلاعات ہی نہیں دے رہی تھیں بلکہ انتباہ بھی کر رہی تھیں۔

ان کی تحقیقاتی رپورٹنگ سے انکشاف ہوا کہ میکسیکو میں ہر دوروز کے بعد ایک 15 سالہ بچہ اپنے گھر میں یا گھر سے باہر کسی کے ہاتھوں قتل ہو جاتا ہے اور بعض اوقات قاتل اس کے اپنے ہی خاندان سے ہوتے ہیں۔

Personal archive
ایلیجاندرا کریل میکسیکو میں صحافی کے طور پر کام کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ 'کورونا وائرس کے آغاز سے ہی انہوں نے گھریلو تشدد کے مسئلے پر بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے مختلف ماہرین سے بات چیت شروع کی۔ انہیں خدشہ تھا کہ وبا کے ہنگامے میں سکولوں، کھیلوں کی جگہوں اور کمیونٹی مراکز سے توجہ ہٹ جائے گی اور ایسے میں بچے ہی سب سے زیادہ غیرمحفوظ ہوں گے۔

بہت سے بچوں کے لیے گھر محفوظ نہیں تھا۔

گھر ان کے لیے خطرناک ترین جگہیں تھیں اور بیشتر واقعات میں انہیں ان کے خاندان کے لوگوں سے ہی گزند پہنچنے کا احتمال تھا۔

اب پانچ سال کے بعد بھی اس تشدد میں کمی نہیں آئی۔ گھریلو تشدد کا نشانہ بننے والوں کی تعداد وبا کے بعد مزید بڑھ گئی ہے۔

وہ ایک واقعہ کبھی نہیں بھلا سکتیں۔ ہوزے لینا زاوالا نامی خاتون نے بتایا کہ ان کے معذور پوتے کو اس کے والد نے جنسی بدسلوکی کا نشانہ بنایا۔

وہ شکایت لے کر پولیس کے پاس گئیں لیکن بچے کی گواہی اور جرم کا ثبوت موجود ہونے کے باوجود ملزم کو معافی مل گئی۔

ایلیجاندرا کہتی ہیں کہ جب لوگ کسی طرح کے انصاف کی تلاش میں حکام کے پاس جاتے ہیں تو عموماً جرم کی مناسب تحقیقات نہیں کی جاتیں جس کی وجہ سے مجرم سزا سے بچ نکلتے ہیں۔

کووڈ وبا نے ایلیجاندرا کی ذاتی سوچ کو بھی بدل دیا ہے۔

اب وہ سمجھتی ہیں کہ انسان کے لیے اس کی صحت ہی سب سے اہم ہے۔ میکسیکو جیسے ملک میں کسی وبا سے بچ نکلنا آسان نہیں ہوتا جہاں صحت عامہ کا اچھا نظام موجود نہیں ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ دنیا میں کام سب سے زیادہ اہم چیز نہیں بلکہ آپ کا خاندان سب سے اہم ہوتا ہے اور یہی حقیقی خزانہ ہے۔ اپنے عزیزوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت بتانا ضروری ہے۔

ورلڈ ہیلتھ اسمبلی اور وباؤں سے نمٹنے کے معاہدے پر بات کرتے ہوئے وہ خبردار کرتی ہیں کہ اس حوالے سے عالمی اقدامات محض ویکسین یا ادویات تک ہی محدود نہیں ہونے چاہئیں۔

صحت کا معاملہ بہت سی چیزوں کا احاطہ کرتا ہے اور اس میں ذہنی اور جذباتی صحت بھی شامل ہے۔

وہ عالمی رہنماؤں کو پیغام دیتی ہیں کہ 'ہمیں ایسے راستے کھولنےکی ضرورت ہے جن سے دنیا کے تمام ممالک کو فائدہ پہنچے۔ معاہدے کے لیے ہونے والی بات چیت کے دوران ان موضوعات پر تبادلہ خیال بھی ہونا چاہیے کیونکہ وبا کے دوران خاندانوں کو تحفظ دینے میں انہی کا اہم کردار ہو گا۔'