Live Updates

ججزتبادلہ کیس کی سماعت کل منگل تک ملتوی ،اٹارنی جنرل دلائل دیں گے

ججزتبادلے میں چارمراحل شامل ہیں، عدلیہ کے چارفورمزکی منظوری لازم ہے، سب کچھ ایگزیکٹو کے ہاتھ میں ہوتا تو الگ بات تھی، جسٹس محمد علی مظہرکے ریمارکس

پیر 26 مئی 2025 19:30

ججزتبادلہ کیس کی سماعت کل منگل تک ملتوی ،اٹارنی جنرل دلائل دیں گے
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 26 مئی2025ء) سپریم کورٹ نے ججزتبادلہ کیس کی سماعت کل منگل تک ملتوی کردی اٹارنی جنرل پاکستان دلائل کاآغاز کریں گے جبکہ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے تبادلوں کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہاہے کہ اس میں 4 مراحل شامل ہوتے ہیں۔ متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، جس ہائیکورٹ میں ٹرانسفر ہونا ہے اس کے چیف جسٹس، ٹرانسفر ہونے والا جج اور چیف جسٹس آف پاکستان۔

اگر کسی ایک مرحلے پر بھی انکار ہو جائے تو تبادلہ ممکن نہیں اگر یہ سب کچھ ایگزیکٹو کے ہاتھ میں ہوتا تو الگ بات تھی، لیکن یہاں عدلیہ کے 4 فورمز کی منظوری لازم ہے جبکہ جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ اگر ملک میں ججز کی ایک مشترکہ سنیارٹی لسٹ ہو تو تنازعات ختم ہو سکتے ہیں،جبکہ ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے عدالت میں موقف اختیار کیاہے کہ موجودہ قانون میں بدنیتی برتی گئی اور سنیارٹی کے حساس معاملے پر عدلیہ کو اندھیرے میں رکھا گیا۔

(جاری ہے)

انھوں نے پیرکواپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے عدالت کوبتایا۔سپریم کورٹ میں ججز ٹرانسفر کیس کی سماعت جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5رکنی آئینی بینچ نے کی،اس دوران سپریم کورٹ میں عدلیہ کی خودمختاری، سنیارٹی اور آئینی آرٹیکلز پر گہرے سوالات اٹھا ? گئے۔ وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیے جب کہ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کل اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

وکیل فیصل صدیقی نے مؤقف اپنایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا قیام آئین کے آرٹیکل 175 کے تحت عمل میں آیا ہے اور اس قانون میں ججز کی تقرری کا تعلق صرف صوبوں سے ہے، جس کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کا تبادلہ ممکن نہیں۔ اگر کسی جج کا تبادلہ ہو بھی جائے تو وہ مستقل نہیں ہوگا اور واپسی پر دوبارہ حلف کی ضرورت نہیں پڑے گی۔اس موقع پر جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 175 اے کے نافذ ہونے کے بعد آرٹیکل 200 غیر مؤثر ہو چکا ہی فیصل صدیقی نے جواب میں کہا کہ تبادلوں کے موجودہ نظام میں جوڈیشل کمیشن کے اختیارات سلب کیے جا رہے ہیں، جو آئینی روح کے منافی ہے۔

جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ اگر ملک میں ججز کی ایک مشترکہ سنیارٹی لسٹ ہو تو تنازعات ختم ہو سکتے ہیں، جس پر فیصل صدیقی نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ مشترکہ سنیارٹی لسٹ سے ججز کے تبادلوں کے اثرات سب پر واضح ہوں گے۔فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ سنیارٹی دہائیوں میں بنتی ہے اور ایگزیکٹو کے ذریعے راتوں رات اس فہرست میں ردوبدل کرنا ایک غاصبانہ عمل ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے تبادلوں کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس میں 4 مراحل شامل ہوتے ہیں۔ متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، جس ہائیکورٹ میں ٹرانسفر ہونا ہے اس کے چیف جسٹس، ٹرانسفر ہونے والا جج اور چیف جسٹس آف پاکستان۔ اگر کسی ایک مرحلے پر بھی انکار ہو جائے تو تبادلہ ممکن نہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ سب کچھ ایگزیکٹو کے ہاتھ میں ہوتا تو الگ بات تھی، لیکن یہاں عدلیہ کے 4 فورمز کی منظوری لازم ہے۔

فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ موجودہ قانون میں بدنیتی برتی گئی اور سنیارٹی کے حساس معاملے پر عدلیہ کو اندھیرے میں رکھا گیا۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس کی سماعت آج منگل تک ملتوی کر دی۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اپنے دلائل دیں گے۔
Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات