سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر نظرثانی درخواستوں کی سماعت 29مئی تک ملتوی

منگل 27 مئی 2025 20:10

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 27 مئی2025ء) سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر نظرثانی درخواستوں کی سماعت 29مئی تک ملتوی کردی ۔منگل کوسپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں گیارہ رکنی آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف نظر ثانی درخواستوں پر سماعت کی۔ دوران سماعت سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی سے جسٹس جمال خان مندو خیل نے استفسار کیا کہ آپ نظر ثانی کی حمایت کررہے ہیں یا مخالفت؟ تیرہ ججز نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل سیٹوں کی حقدار نہیں۔

وکیل فیصل صدیقی نے موقف اختیار کیا کہ میں جسٹس مندوخیل کے فیصلے کی کسی حد تک حمایت کررہا ہوں۔ کبھی کبھار ہار کر بھی جیت جاتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے پی ٹی آئی وکیل سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی کیس میں آپ پی ٹی آئی کی طرف سے سنی اتحاد کونسل کو سپورٹ کررہے تھے، آج یہ آپ کو سپورٹ کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ نظرثانی صرف اکثریتی فیصلے کیخلاف دائر کی گئی ہے۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میں اپنی سات گزارشات عدالت کے سامنے رکھوں گا، پہلے اس اعتراض کا جواب دوں گا کہ پی ٹی آئی فریق نہیں تھی تو ریلیف کیسے دیا گیا ، درخواست گزاروں کے وکیل نے مجموعی طور پر سات نکات سامنے رکھے ہیں، مخدوم علی خان نے اعتراض اٹھایا کہ درخواست پشاور ہائیکورٹ میں قابل سماعت نہیں تھی۔ دوران سماعت جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ انتخابی نشان نہ دینا الیکشن کمیشن کا فیصلہ تھا یا سپریم کورٹ کا؟ فیصل صدیقی نے کہا انتخابی نشان نہ دینا الیکشن کمیشن کا فیصلہ تھا۔

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے سپریم کورٹ میں تو صرف تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کا مقدمہ تھا۔ فیصل صدیقی نے عدالت میں اکثریتی فیصلے کے پیرا گراف پڑھ کر سنائے جس پر جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ حقائق پر تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ فیصل صدیقی نے موقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں مانے، جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ یہ حقائق ہمارے سامنے نہیں ہیں۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ یہ حقائق نہیں بتائوں گا تو نئے ججز کو تنازع سمجھ نہیں آئے گا۔ فیصل صدیقی نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے برقرار رکھا، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو بطور جماعت ماننے سے انکار کردیا اور تحریک انصاف کے امیدواروں کو پی ٹی آئی کا ماننے سے انکار کردیا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا اس فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا؟ فیصل صدیقی نے موقف اختیار کیا کہ سلمان اکرم راجہ نے چیلنج کیا، اسکا ذکر مرکزی فیصلے میں ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ نے صرف انتخابی نشان کا فیصلہ کیا تھا، پارٹی برقرار تھی۔ فیصل صدیقی نے موقف اختیار کیا کہ دس ججز نے قرار دیا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ فیصلے کی غلط تشریح کی۔ جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی نے فیصلے کی غلط تشریح چیلنج کی؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ سلمان اکرم راجہ نے ریٹرننگ افسر کا فیصلہ چیلنج کیا تھا، ریٹرننگ افسر نے سلمان اکرم راجہ کو پی ٹی آئی امیدوار تسلیم نہیں کیا۔

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے سلمان اکرم راجہ نے ہائیکورٹ سے رجوع کیا تو کیس ریمانڈ کر دیا گیا، سلمان اکرم راجہ نے فیصلے کیخلاف اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی تھی۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی نے خود ہی سمجھ لیا تھا کہ وہ سیاسی جماعت نہیں رہے۔ فیصل صدیقی نے موقف اپنایا کہ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے حصول کیلئے درخواست دائر کی، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور جمعیت علمائے اسلام نے درخواستیں دائر کیں، درخواستوں میں کہا گیا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دی جائیں، ان جماعتوں نے درخواست میں یہ بھی کہا یہ مخصوص نشستیں ہمیں دی جائیں، حالانکہ ان جماعتوں کو ان کی متناسب نمائندگی سے نشستیں مل چکی تھیں، مخصوص نشستوں سے متعلق قومی اور صوبائی اسمبلی کی 78 نشستیں ہیں جن پر تنازع ہے، اگر یہ نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کو دے دی جائیں تو حکومت کو دو تہائی اکثریت مل جائے گی۔

فیصل صدیقی نے آرٹیکل 63A نظرثانی کیس سمیت دیگر فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نظرثانی کن باتوں پر ہوسکتی ہے اس پر بات کرنا چاہتا ہوں، مخصوص نشستوں کیخلاف نظرثانی درخواستیں قابل سماعت نہیں ہیں، نظرثانی کیلئے فیصلے میں غلطی یا نقائص ہونا ضروری ہیں۔ جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ رولز کے مطابق جو شخص سمجھتا ہے وہ فیصلے سے متاثرہ ہے نظرثانی کر سکتا ہے، آئین کے آرٹیکل 188 میں ایسا کچھ نہیں، صرف لکھا ہے کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرسکتی ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا ہم نے اپنے اقلیتی فیصلے میں لکھا کہ جس ریکارڈ پر اکثریتی فیصلہ دیا وہ قانون کے مطابق مانا ہی نہیں جاسکتا تھا، وہ ریکارڈ عدالت کے سامنے نہیں تھا، یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک امیدوار تین یا چار کاغذات نامزدگی فائل کردے۔ فیصل صدیقی نے کہاکہ مجھے ابھی نظرثانی درخواستوں کے قابل سماعت نہ ہونے کے مزید تین نکات پر بات کرنی ہے، اسکے بعد میں کیس کے میرٹس پر دلائل دوں گا۔ بعد ازاں عدالت نے مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس کی سماعت 29 مئی تک ملتوی کردی۔آئندہ سماعت پر بھی سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی دلائل جاری رکھیں گے۔