
کیا ختم ہوتے سمندروں کو نیس کی یو این کانفرنس بچا پائے گی؟
یو این
جمعہ 6 جون 2025
10:45

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 06 جون 2025ء) عالمی حدت میں اضافے سے سمندروں کا درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے جن میں مونگے اور مچھلیوں کے ذخیرے تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ 9 جون سے فرانس میں شروع ہونے والی اقوم متحدہ کی سمندری کانفرنس میں اس مسئلے سے نمٹنے اور سمندری ماحولیاتی نظام کو تحفظ دینے کے لیے اہم فیصلوں کی توقع ہے۔
فرانس کے شہر نیس میں 13 جون تک جاری رہنے والی اس کانفرنس (یو این او سی 3) میں سمندروں کو درپیش شدید ہنگامی صورتحال سے نمٹنے پر غورخوض ہو گا جس کے بارے میں سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اب اس ضمن میں جتنا نقصان ہو چکا ہے اس کا ازالہ باآسانی ممکن نہیں۔
فرانس کے ساتھ کوسٹاریکا بھی اس کانفرنس کا مشترکہ میزبان ہے۔
(جاری ہے)
کانفرنس کے سیکرٹری جنرل اور اقوام متحدہ کے ادارہ معاشی و سماجی امور کے سربراہ لی جُنہوا نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی، پلاسٹک کی آلودگی، ماحولیاتی نظام کے نقصان اور سمندری وسائل کے حد سے زیادہ استعمال کے باعث سمندر کو غیرمعمولی بحران کا سامنا ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ اس کانفرنس کی بدولت سمندروں کو تحفظ دینے کے حوالے سے غیرمعمولی عزائم، اختراعی شراکتیں اور صحت مند مسابقتیں دیکھنے کو ملیں گی۔
کانفرنس کے بنیادی مقاصد
کانفرنس میں عالمی رہنماؤں، سائنس دانوں، تحفظ ماحول کے کارکنوں اور کاروباری منتظمین کی بڑی تعداد شریک ہو رہی ہے جو دنیا بھر کے سمندروں میں بڑھتے ہوئے بحرانوں پر قابو پانے کے طریقے ڈھونڈیں گے۔ سمندروں کو تحفظ دینے کے لیے رضاکارانہ وعدے لینا، نئی شراکتیں قائم کرنا اور سمندری ماحول کے انحطاط کو روکنے کے لیے احتساب کو فروغ دینا اس کانفرنس کے بنیادی مقاصد ہیں۔
ہفتہ بھر جاری رہنے والی بات چیت کے بعد کانفرنس کے شرکا ایک سیاسی اعلامیے کی منظوری دیں گے اور 'نیس سمندری لائحہ عمل' کا اعلان کیا جائے گا جو بحران پر قابو پانے کے لیے اس کی شدت کے مطابق اقدامات کرنے اور سمندروں کے تحفظ اور پائیدار استعمال کے اقدامات کو تیز کرنے کی کوشش ہو گی۔
مونگے کی چٹانوں کا خاتمہ
سمندری بحران دور کی بات نہیں بلکہ یہ آ چکا ہے اور بڑھتا جا رہا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی پر یورپی یونین کے ادارے نے بتایا ہے کہ اپریل میں سطح سمندر کے درجہ حرارت نے مہینے میں دوسری مرتبہ ریکارڈ بلندی کو چھوا۔ اس کے علاوہ، غرب الہند کے سمندر، بحیرہ ہند اور الکاہل میں کئی جگہوں پر مونگے کی چٹانوں کا وسیع سلسلہ ختم ہو رہا ہے جس کی معلوم تاریخ میں کوئی اور مثال نہیں ملتی۔مونگے کی چٹانیں تمام سمندری انواع کے ایک چوتھائی کو قائم رہنے میں مدد دیتی ہیں اور ان کی بدولت سیاحت اور ماہی گیری سے اربوں ڈالر حاصل ہوتے ہیں۔
ان کے خاتمے سے حیاتیاتی تنوع، غذائی تحفظ اور سمندری استحکام کو شدید نقصان پہنچے گا۔سمندر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے پیدا ہونے والی حدت کی 90 فیصد مقدار کو جذب کر لیتے ہیں لیکن اب ان کی یہ صلاحیت ختم ہو رہی ہے۔ پلاسٹک کی آدلوگی، حد سے زیادہ ماہی گیری، حیاتیاتی تنوع کے نقصان، سمندری تیزابیت اور عالمی حدت جیسے تمام مسائل کا تعلق موسمیاتی تبدیلی سے ہے۔

سمندری تحفظ پر مثبت پیش رفت
تاہم، ان تمام مسائل کے باوجود سمندری تحفظ کے حوالے سے پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ 2022 میں عالمی تجارتی تنظیم نے ایسی نقصان دہ سبسڈی (امدادی قیمتوں) کو مرحلہ وار ختم کرنے کا معاہدہ طے کیا جن کے باعث دنیا بھر کے سمندروں میں حد سے زیادہ ماہی گیری ہوتی ہے۔ یہ معاہدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے کثیرفریقی عزم کی نادر مثال ہے۔
اس سے اگلے برس دنیا بھر کے ممالک نے گہرے سمندروں کے معاہدے پر اتفاق کیا جسے 'بی بی این جے' بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا مقصد بین الاقوامی پانیوں میں سمندری حیات کو تحفظ دینا ہے۔ نیس کانفرنس میں یہ معاہدہ نافذالعمل ہو جائے گا۔لی جُنہوا نے کہا ہےکہ محض پالیسی سازی کی بدولت سمندری ماحولیاتی نظام کو تیزرفتار انحطاط سے تحفظ دینا ممکن نہیں اور اس معاملے میں اب تک اٹھائے گئے عالمگیر اقدامات ناکافی ہیں۔
اس مقصد کے لیے ناصرف سیاسی عزم کی ضرورت ہے بلکہ حسب ضرورت مالی وسائل بھی درکار ہیں۔5 سال میں ارب ڈالر کی ضرورت
سمندروں کا خشکی پر زندگی کو رواں رکھنے میں اہم ترین کردار ہے۔ کرہ ارض کی نصف آکسیجن سمندروں سے ہی پیدا ہوتی ہے اور یہ موسمی شدت کے واقعات کو روکنے میں بھی مددگار ہیں لیکن اس کے باوجود انہیں تحفظ دینے کے لیے خاطرخواہ مقدار میں مالی وسائل مہیا نہیں کیے جاتے۔
زیرآب زندگی کے تحفظ سے متعلق پائیدار ترقی کے 14ویں ہدف تک پہنچنے کے لیے فراہم کردہ وسائل دیگر تمام اہداف کے مقابلے میں کم ہیں۔لی جُنہوا نے کہا ہے کہ سمندری ماحولیاتی نظام کو تحفظ دینے اور برقرار رکھنے کے لیے آئندہ پانچ برس میں سالانہ تقریباً 175 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ تاہم، اس ضمن میں 2015 سے 2019 کے درمیان 10 ارب ڈالر سے بھی کم جمع ہوئے تھے۔
نیس سمندری لائحہ عمل
پانچ روزہ کانفرنس کے شرکا ان سوالات پر غور کریں گے کہ غیرقانونی ماہی گیری اور پلاسٹک کی آلودگی کا خاتمہ کیسے ممکن ہے اور سمندری معیشتوں کو ترقی کیسے دی جا سکتی ہے۔ اس موقع پر سیکڑوں نئے وعدوں کی توقع ہے جو 2017 میں ہونے والی پہلی سمندری کانفرنس میں کیے گئے 2,000 وعدوں کو آگے بڑھائیں گے۔
نیس سمندری لائحہ عمل حیاتیاتی تنوع پر کُنمنگ۔
مانٹریال فریم ورک سے ہم آہنگ ہو گا جو 2022 میں طے پایا تھا اور اس میں 2030 تک سمندروں اور خشکی کے کم از کم 30 فیصد ماحولیاتی نظام کو تحفظ دینے کا عزم کیا گیا ہے۔نئے وعدوں کے ساتھ اس میں ایک رسمی اعلامیہ بھی شامل ہو گا جسے لی جُنہوا نے ایسی بلیغ سیاسی دستاویز قرار دیا ہے جو اس مسئلے پر عملی اقدامات کے لیے تحریک دے گی۔ آسٹریلیا اور کابو ویڈ کے تیار کردہ اعلامیے میں سمندری تحفط اور سمندر کی بنیاد پر پائیدار معیشتوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے اور اس میں عملی اقدامات کو مہمیز دینے کے ٹھوس طریقوں کا تذکرہ بھی ہے۔

اقدامات اور توقعات
ہر سال 12 ملین میٹرک ٹن پلاسٹک سمندروں کی نذر ہو جاتا ہے۔ باالفاظ دیگر ہر منٹ میں کوڑے سے بھرے ایک ٹرک کے برابر پلاسٹک سمندروں میں پھینکا جا رہا ہے۔ نیس میں مندوبین کو پلاسٹک کی آلودگی کا جڑ سے خاتمہ کرنے کا عالمی معاہدہ طے پانے کی توقع ہے۔
کرہ ارض پر 60 فیصد سے زیادہ سمندری ماحولیاتی نظام انحطاط کا شکار ہیں یا انہیں ناپائیدار استعمال کے باعث خطرات کا سامنا ہے۔
کانفرنس میں 2030 تک 30 فیصد سمندروں کو تحفظ دینے کی کوششوں کو بہتر بنانے کے ساتھ سمندری ٹریفک سے کاربن کے اخراج کا خاتمہ کرنے کے لیے لائحہ عمل بھی شروع کیا جائے گا۔1970 میں دنیا بھر میں مچھلیوں کے 90 فیصد ذخائر محفوظ حیاتیاتی حدود میں تھے جبکہ 2021 میں ان کی تعداد 62 فیصد رہ گئی تھی۔ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ نیس کانفرنس سے پائیدار ماہی گیری کے حوالے سے نئے بین الاقوامی معاہدے کی راہ ہموار ہو گی۔
دنیا میں تین ارب سے یادہ لوگوں کا روزگار سمندری حیاتیاتی تنوع سے وابستہ ہے۔ کانفرنس میں سمندری معیشتوں کو ترقی دینے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کا معاملہ بھی ترجیحی بنیاد پر زیرغور آئے گا۔
پیرس سے نیس تک
یہ کانفرنس ایسے موقع پر منعقد کی جا رہی ہے جب پیرس موسمیاتی معاہدے کو 10 برس مکمل ہو رہے ہیں۔ کانفرنس میں موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں سمندروں کے تحفظ کو مرکزی اہمیت دلانے کے لیے کوشش کی جانا ہے۔
لی جُنہوا نے کہا ہے کہ اس کانفرنس کے ذریعے سمندروں کو درپیش باہم مربوط بحران پر قابو پانے کے اقدامات زیرغور آئیں گے۔ علاوہ ازیں، اس میں خواتین، قدیمی مقامی لوگوں اور ماہی گیر و ساحلی آبادیوں کے نمائندوں کی بات بھی سنی جانا ہے جنہیں عام طور پر ایسے مواقع پر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
لی جُنہوا نے کہا ہے کہ یہ گروہ موسمیاتی تبدیلی اور سمندری انحطاط کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں لیکن اس مسئلے کو حل کرنے میں ان کا اہم کردار ہے اور اسی لیے انہیں بااختیار بنانا ضروری ہے۔

مزید اہم خبریں
-
آئی سی سی ججوں پر امریکی پابندیاں نظام انصاف کے لیے نقصان دہ، وولکر ترک
-
بجلی میٹروں کا نیا نظام متعارف کرانے کا مطلب کہ عام صارفین سے ہرصورت لوٹ مار کرنی ہے
-
وفاقی حکومت نے اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں 500فیصد اضافہ کردیا
-
سعودی ولی عہد کا وزیراعظم پاکستان کا خصوصی استقبال،خود گاڑی چلا کر ظہرانے میں لے کر گئے
-
چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کی تقرری کیلئے حکومت اور اپوزیشن کو سنجیدہ مذاکرات کرنا ہوں گے
-
مطالبہ ہے کہ بجٹ میں ایک لاکھ 25 ہزار ماہانہ تنخواہ والے ملازمین کو ٹیکس سے استشنی دی جائے
-
اداکارائیں ہدایت کاروں کی جانب سے ہراساں کرنے سے متعلق جھوٹ بولتی ہیں‘خلیل الرحمن قمر
-
بلاول بھٹو زرداری نے سی پیک کی طرح پاک بھارت اقتصادی راہداری کی تجویز دے دی
-
عید الاضحی کے روز مزید سولہ فلسطینی ہلاک، حماس
-
سکیورٹی فورسز کی ضلع کچھی میں کارروائی، فتنة الہندوستان کے 2 دہشتگرد ہلاک کردیئے
-
وزیراعظم شہباز شریف کی سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان کے خصوصی ظہرانے میں بطور مہمانِ خاص شرکت،دونوں رہنماؤں کے مابین غیر رسمی گفتگو
-
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا ضلع کچھی میں فتنہ الہندوستان کے دہشتگردوں کے خلاف کامیاب آپریشن پر سکیورٹی فورسز کو خراج تحسین
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.