امریکی تجویز مسترد، متبادل ایرانی منصوبہ پیش کرنے کا اعلان

DW ڈی ڈبلیو پیر 9 جون 2025 17:20

امریکی تجویز مسترد، متبادل ایرانی منصوبہ پیش کرنے کا اعلان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 جون 2025ء) ایران نے پیر کو اعلان کیا کہ وہ جلد ہی عمان کے ذریعے امریکہ کو جوہری معاہدے کے لیے اپنا جوابی منصوبہ پیش کرے گا۔ ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے کہا کہ امریکی تجویز 'ناقابلِ قبول‘ ہے کیونکہ یہ گزشتہ مذاکرات کے نتائج پر مبنی نہیں۔ انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ ایران کے دیرینہ دشمن اسرائیل کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے پر مجبور کرے، جسے تہران جوہری مذاکرات سبوتاژ کرنے کا الزام دیتا ہے۔

بقائی نے مزید کہا، ''ہمیں امریکی تجویز قبول نہیں۔ یہ گزشتہ مذاکراتی ادوار کے نتائج سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ہم عمان کے ذریعے اپنا منصوبہ پیش کریں گے جو معقول، منطقی اور متوازن ہو گا۔

(جاری ہے)

‘‘ انہوں نے زور دیا کہ پابندیوں کے خاتمے سے قبل یہ یقینی بنایا جائے کہ ایران کو معاشی فوائد حاصل ہوں اور اس کے بینکنگ و تجارتی تعلقات دیگر ممالک کے ساتھ معمول پر آئیں۔

قبل ازیں نیوز ایجنسی روئٹرز نے رپورٹ کیا تھا کہ تہران مئی کے آخر میں پیش کی گئی امریکی تجویز کا جواب کر رہا ہے۔ ایک ایرانی سفارت کار کے مطابق امریکی پیشکش میں ایران کی یورینیم افزودگی، افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو بیرون ملک بھیجنے اور امریکی پابندیوں کے خاتمے کے لیے قابلِ اعتماد اقدامات سے متعلق اختلافات حل نہیں کیے گئے۔

بقائی نے بتایا کہ تہران اور واشنگٹن کے درمیان چھٹے دور کے جوہری مذاکرات کے وقت کے بارے میں ابھی کوئی تفصیلات طے نہیں ہوئیں۔ گزشتہ ہفتے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکی تجویز کو ایران کے مفادات کے خلاف قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا اور ایرانی سرزمین پر یورینیم افزودگی جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔

اسرائیلی حملے سے بچاؤ کے لیے ایران جوہری معاہدہ کرے، سعودی انتباہ

گزشتہ بدھ کے روز سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یورینیم افزودگی ایران کے جوہری پروگرام کا ''کلیدی‘‘ حصہ ہے اور اس پر امریکہ کو کوئی رائے دینے کا حق حاصل نہیں ہے۔

مغربی ممالک ایران میں یورینیم کی افزودگی کو جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت کے طور پر دیکھتے ہیں، جبکہ ایران کا دعویٰ ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ فی الحال ایران یورینیم کو 60 فیصد تک افزودہ کر رہا ہے، جو سن 2015 کے معاہدے کی 3.67 فیصد حد سے کہیں زیادہ ہے لیکن جوہری ہتھیار کے لیے درکار 90 فیصد سے ابھی کم ہے۔

سن 2018 میں اپنے پہلے دورِ صدارت کے دوران، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2015 کے جوہری معاہدے کو یکطرفہ طور پر ترک کر دیا تھا، جس کے نتیجے میں ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کی گئیں، جنہوں نے ایرانی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا۔ جواباً ایران نے معاہدے کی حدود سے کہیں زیادہ یورینیم افزودگی شروع کر دی تھی۔

ایران کا کہنا ہے کہ مغرب اسرائیل کے جوہری پروگرام کو نظر انداز جبکہ ایران کے پروگرام پر تنقید کرتا ہے۔

اسرائیل نے ابھی تک نہ تو اپنے جوہری ہتھیاروں کی موجودگی کی تصدیق اور نہ ہی تردید کی ہے۔ اسماعیل بقائی نے کہا کہ ایران جلد ہی ایسی حساس اسرائیلی دستاویزات منظر عام پر لائے گا، جو یہ ثابت کریں گی کہ ''وہ فریق، جو ایران کے پرامن جوہری پروگرام پر سوال اٹھاتے ہیں، اسرائیل کے فوجی جوہری پروگرام کو مضبوط کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ مذاکراتی فریقین کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کو سفارتی عمل میں خلل ڈالنے کی اجازت نہ دیں۔

دریں اثنا قوام متحدہ کی انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) نو سے 13 جون تک ویانا میں اپنے بورڈ آف گورنرز کا ایک اجلاس منعقد کرے گی تاکہ ایران کی جوہری سرگرمیوں پر تبادلہ خیال کیا جائے۔ یہ اجلاس آئی اے ای اے کی اُس رپورٹ کے بعد ہو رہا ہے، جس میں تہران کے تعاون کو 'غیر تسلی بخش‘ قرار دیا گیا ہے۔ ایران خاص طور پر غیر اعلانیہ مقامات پر پائے گئے جوہری مواد کے بارے میں وضاحت دینے میں ناکام رہا ہے۔ تاہم ایران نے اس رپورٹ کو 'غیر متوازن‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ رپورٹ اسرائیل کی فراہم کردہ 'جعلی دستاویزات‘ پر مبنی ہے۔

ادارت: مریم احمد