اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 جون 2025ء) یوں تو ہر سال چائلڈ لیبر کے خلاف سیمنارز منعقد کیے جاتے ہیں، ریلیاں نکالی جاتی ہیں مگر میرے خیال میں وہ سب محض ایک کیٹ واک اور شو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان دنیا میں چائلڈ لیبر کی فہرست والے ممالک میں چھٹے نمبر پر آتا ہے، جہاں ایک کروڑ سے زائد بچے محنت و مشقت کی چکی میں پِس رہے ہیں۔
پاکستان کے کچھ علاقے ایسے ہیں کہ جہاں سروے کرنا لنکا ڈھانے کے مترادف ہے جیسے بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے بہت سے دشوار گزار، پسماندہ اور خطرناک علاقے اور ان کے مضافات میں قبائلی علاقے۔ چونکہ ان علاقوں میں مفلسی کا گراف بہت زیادہ ہے اس لیے بلاتردد ان علاقوں میں چائلڈ لیبر بہت بڑی تعداد میں پائی جاتی ہو گی۔(جاری ہے)
گہرے پانیوں میں ماہی گیری جیسے خطرناک پیشوں کے علاوہ ایک پوری فہرست ہے جو بچوں سے مزدوری کی بدترین اقسام کے زمرے میں شمار ہوتی ہے۔
مثلاً زیر زمین پتھروں کی کھدائی یا کان وغیرہ جس میں سانس گھٹنے کا خدشہ ہو یا جس میں بارودی مواد کی بلاسٹنگ کا خطرہ ہو۔ دباغت کے کام۔ تیز دھار والے آلات کی مینو فیکچرنگ جہاں ہوتی ہو وغیرہ وغیرہ۔چائلڈ لیبر کی بنیادی وجہ مہنگائی اور وسائل کی کمی ہے۔ غربت کے سبب ماں باپ اپنے آٹھ آٹھ، دس دس سال کے بچوں کو قریبی شہروں میں کمانے کے لیے بھیج دیتے ہیں اور کوئی بھی ہنر یا تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے یہ معصوم بچے ہوٹلوں، چائے خانوں اور دیگر چھوٹی موٹی دکانوں میں کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
اسی طرح بہت سے بچوں کو ماں باپ شہروں میں کوئی ہنر سیکھنے کے لیے بھیج دیتے ہیں کہ "چلو کوئی ہنر سیکھ کے اچھے پیسوں والی نوکری مل جائے گی اور مستقبل میں لڑکا خود اپنی دکان لگا لے گا۔" مگر یہ بچے جب شہروں میں پہنچتے ہیں تو آگے ان کی مجبوری اور سستی لیبر کو دیکھ کر آٹو موبائل، الیکٹریکل اور لوہے کی دکانوں وغیرہ کے مالکان کی رالیں ٹپکنا شروع ہو جاتی ہیں اور وہ ان معصوم بچوں کی محنت کا شدید ترین استحصال کرتے ہیں۔ان معصوم بچوں کو وہ مالکان دن بھر کی شدید محنت اور مشقت کے بعد معمولی سی دیہاڑی دے کر ساتھ یہ احسان بھی کر دیتے ہیں کہ وہ انہیں سکھا رہے ہیں اور سارا سارا دن ان سے شدید گرمی میں نا صرف دکان کا کام لیتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو بادشاہ تصور کرتے ہوئے ان معصوم بچوں سے سارا دن فالتو کام جیسے بوتلیں، جوس یا چائے وغیرہ بھی منگواتے ہیں۔
بعض فرعونیت کے مارے انہیں تھپڑ بھی رسید کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے۔ یہ عمل آج کے عہد میں غلامی کی منظر کشی کرتا ہے۔تلخ حقیقت ہے کہ زیادہ تر بچے سکول جانا اس لیے چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ تعلیم کے اوپر روپیہ خرچ نہیں کر سکتے جبکہ وہی بچے اگر کسی جگہ کام کرنا شروع کر دیں تو وہ نہ صرف اپنے خاندان کا سہارا بن جاتے ہیں بلکہ افرادی قوت میں بھی اضافے کا باعث بنتے ہیں جبکہ ماہرین معاشیات اس نقطے پر اختلاف کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ ایسے بچے جو مزدوری کرتے ہیں وہ اپنے خاندان کو مکمل طور پر سپورٹ نہیں کر رہے ہوتے کیونکہ ان کی محنت کا معاوضہ آٹے میں نمک کے برابر ہوتا ہے۔
محنت کش بچے کوئی پیدائشی محنت کش نہیں ہوتے اور ان کے چہرے بھی ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے بڑے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلباء کے ہوتے ہیں لیکن وسائل کی قلت کے باعث وہ معاشرے میں "چھوٹے" بن کر رہ جاتے ہیں۔ بڑے بھی ہو جائیں تب بھی "او چھوٹو" کا لیبل تاحیات لگ جاتا ہے۔ ایک بزرگ دانشور کا کہنا ہے کہ غریبوں کے بچے اپنے والدین کے بھی والدین ہوتے ہیں کیونکہ والدین کا کام بچوں کے لیے روزی کمانا ہوتا ہے اور یہ کام وہ نہ صرف اپنے لیے کرتے ہیں بلکہ وہ گھر کے دوسرے افراد کے لیے بھی کرتے ہیں۔
چائلڈ لیبر کے عفریت پر قابو پانا وقت کی پکار ہے۔ پاکستان میں طرف تو اربوں روپے کے بجٹ پیش کیے جارہے ہیں تو دوسری طرف پاکستان میں لاکھوں بچے جبری مشقت پر مجبور ہیں کیا فائدہ چائلڈ لیبر کے حوالے سے پےدرپے اتنے زیادہ نوٹیفکیشن جاری کرنے کا جب ان پر عملدرآمد صفر ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔