شہروں میں بڑھتے ہوئے رہائشی مسائل اور غیر محفوظ تعمیرات

DW ڈی ڈبلیو پیر 4 اگست 2025 19:20

شہروں میں بڑھتے ہوئے رہائشی مسائل اور غیر محفوظ تعمیرات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 اگست 2025ء) حال ہی میں کراچی کے علاقے لیاری میں ایک عمارت منہدم ہونے کی وجہ سے 27 انسانی جانیں ضائع ہوئیں اور کئی زخمی بھی ہوئے۔ لوگوں کی زندگی بھر کی کمائی بھی ملبے تلے دب گئی۔ پاکستان میں کسی عمارت کے گرنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ ملک کی نو کروڑ سے زیادہ غریب آبادی کا ایک بڑا حصہ ایسے ہی کچی آبادیوں میں رہتا ہے، جہاں نہ صاف پانی کی دستیابی ہے، نہ نکاسی آب کا موثر انتظام ہے۔

گلیاں اتنی تنگ و تاریک ہیں کہ ایمرجنسی کی صورت میں نہ کوئی ایمبولنس وہاں داخل ہو سکتی ہے اور عمارتوں کے گرنے جیسے حادثات کی صورت میں کسی بھاری مشینری کو بھی وہاں نہیں پہنچایا جا سکتا۔

(جاری ہے)

لوگوں کو روزگار، تعلیم، علاج ومعالجے، پینے کا صاف پانی اور رہائش فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ تاہم ہمارے ملک میں صورت حال مختلف ہے، جہاں حکومت عوام پر دھڑا دھڑ ٹیکس نافذ کر رہی ہے لیکن جب شہریوں کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے کی ذمہ داری کی بات آتی ہے، تو ریاست اپنی جان چھڑانے کی کوشش کرتی ہے۔

لیاری کراچی کی پہلی بستی نہیں ہے، جہاں بڑے پیمانے پر اس طرح کی عمارتیں قائم ہیں۔ حکام کے مطابق شہر کے اس قدیم علاقے میں ہی 51 کے قریب ایسی اور عمارتیں ہیں، جن کے گرنے کے خطرات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ کھارادر، میٹھا در، آگرہ تاج کالونی، ہزارہ کالونی، کورنگی کا بنگالی پاڑا، مچھر کالونی، اورنگی ٹاؤن، گلبہار، گولیمار اور نیو کراچی سمیت کئی علاقوں میں ایسی کچی آبادیاں ہیں، جہاں پر غیر قانونی طور پر 120 گز، 80 گز اور 200 گز کے رقبے پر اچھی خاصی اونچی عمارتیں تعمیر کر دی گئی ہیں۔

اسی طرح لاہور، پشاور اور ملک کے کچھ دیگر علاقوں میں بھی کچی آبادیوں میں اجازت کے بغیر دوسری یا تیسری منزلیں بنا دی گئی ہیں لیکن کراچی میں تو اس حوالے سے حد ہی کر دی گئی ہے، جہاں نہ صرف یہ کہ شہر کے پوش علاقوں میں کئی بلند و بالا عمارات ہیں بلکہ ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد جیسے مڈل کلاس علاقوں میں بھی بڑے پیمانے پہ بلند و بالا عمارات کھڑی کر دی گئی ہیں۔

ایسے میں خدانخواستہ اگر شہر میں زلزلہ آتا ہے تو کسی کو کوئی اندازہ نہیں کیا حشر ہوگا کیونکہ یہ بات واضح نہیں ہے کہ یہ عمارتیں کھڑی کرنے سے پہلے حکام نے اس بات کا سروے بھی کیا تھا کہ یہ زمین تعمیر کے لیے موزوں ہے بھی یا نہیں۔ حکام کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ آج بھی اگر آپ کسی پائپ لائن کی مرمت کے لیے کوئی گڑھا کھو دیں یا اپنا گھر تعمیر کرنے کے لیے کھڑے ہوں، آنا فانا وہاں پولیس کی موبائل نمودار ہو کر آپ سے بھتہ طلب کرنا شروع کر دیتی ہے۔

لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان عمارتوں کے تعمیر کے وقت حکام نے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں۔

ملک کے دیہی اور شہری علاقوں میں زمین کی تقسیم انتہائی غیر منصفانہ ہے۔ ایک طرف بڑے جاگیرداروں کے پاس لاکھوں ایکڑز زمین ہے جبکہ 35 فیصد کسانوں کے پاس اپنی کوئی زمین نہیں۔ شہری علاقوں میں ایک طرف اشرافیہ کے لوگوں کے پاس کئی فارم ہاؤسز، بنگلے اور محلات نما گھر ہیں، تو دوسری طرف عوام کی اکثریت کو تین مرلے کا اپنا گھر میسر نہیں۔

کسی زمانے میں ہاؤس بلڈنگ فنائنس کارپوریشن نے کم آمدنی والے افراد کو اپنا گھر بنانے میں بڑا اہم کردارادا کیا تھا۔ یہ کارپوریشن پیشگی ادائیگی کا ایک بڑا حصہ گھر بنانے والے کو ادا کرتی تھی۔ تاہم اب یہ ادائیگی انتہائی محدود کر دی گئی ہے، جو تقریبا نجی بینکوں کے ہی برابر ہے۔ ماضی میں کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی، کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی آف اسلام آباد نے بھی کئی ایسی رہائشی اسکیمیں شروع کیں جو متوسط طبقے اور کم آمدنی والے افراد کے لیے انتہائی مناسب تھی۔

لیکن 1980 کی دہائی میں جہاں معیشت کے مختلف شعبوں میں ڈی ریگولیشن کی گئی وہیں، ہاؤسنگ سیکٹر میں بھی یہ ڈی ریگولیشن دیکھنے میں آئی۔ افغان جنگ کے دوران کالے دھن کا ایک بڑا حصہ ریئل اسٹیٹ میں سرایت کر گیا اور کچھ ہی عشروں میں ایک بڑی تعداد میں نجی ہاؤسنگ اسکیموں نے کام شروع کر دیا، جن میں سے ایک بڑی تعداد نے لوگوں کے ساتھ فراڈ بھی کیا۔

اس فراڈ کے پیش نظر لوگ کوشش کرتے ہیں کہ جس کچے پکے علاقے میں وہ رہ رہے ہیں وہیں پر وہ کسی غیر محفوظ عمارت میں سکونت اختیار کر لیں۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف اکنامک ڈیویلپمنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کی ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں 287 پلاٹس کے لیے دوہزار سے زائد فائلیں فروخت کی گئیں۔ ملک کی کئی نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز اسی طرح فائلیں بیچ کر اربوں روپیہ کماتی رہیں اور آخر میں لوگوں کا پیسہ لے کر بھاگ گئیں۔

آج بھی ہزاروں کی تعداد میں ایسی ہاؤسنگ سوسائٹیز ہیں، جنہوں نے لوگوں سے پورا پیسہ وصول کرنے کے باوجود دس، پندرہ یا بیس سال یا کچھ معاملات میں 30 سال گزرنے کے باوجود ان کو ان کے پلاٹس پر قبضہ نہیں دیا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت فائل کلچر پر موثر پابندی لگائے، جن ہاؤسنگ سوسائٹیز نے عوام سے پوری رقم لے لی ہے ان کو مجبور کیا جائے کہ انہیں وہ فوری طور پر گھر تعمیر کرنے کے لیے قبضہ دیں۔

سرکار خود کم آمدنی والی ہاؤسنگ اسکیمیں متعارف کرائے۔ زمین کی ملکیت کی حد مقرر کرے اور اس بات کی اجازت بالکل نہیں ہونا چاہیے کہ ایک شخص کے پاس 200 پلاٹس یا پانچ سو پلاٹس ہوں اور دوسری طرف لاکھوں لوگوں کے پاس زمین کا ایک ٹکڑا بھی نہ ہو۔ تمام بلند و بالا عمارات کا نہ صرف سلامتی کے حوالے سے سروے کرایا جائے بلکہ اس بات کو بھی دیکھا جائے کہ کسی زلزلے یا قدرتی آفت کی صورت میں وہ انسانی جان و مال کے لیے خطرہ تو ثابت نہیں ہوں گی۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔