اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 جون 2025ء) امریکہ میں گیارہ ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد امریکی سربراہی میں اتحادی افواج کی طرف سے افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ کے بارے میں ڈھیروں کتابیں لکھی گئیں، جن میں سے زیادہ تر مغربی نقطہ نظر بیان کرتی ہیں۔
لیکن اگست 2021ء میںطالبانکے افغانستان میں برسر اقتدار آنے کے بعد کے برسوں میں، طالبان شخصیات کی تحریریں منظر عام پر آ رہی ہیں، جن میں ان کے کارناموں اور ''اسلامی امارت‘‘ کی کامیابیوں کی تعریف کی گئی ہے، جو افغانستان سے متعلق ایک مختلف بیانیہ بنا رہی ہیں۔
ایسے ہی ایک مصنف خالد زدران نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، غیر ملکیوں نے جو کچھ بھی لکھا ہے ... انہوں نے بڑی حد تک اس حقیقت کو نظر انداز کیا ہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا اور ہمیں لڑنے پر کیوں مجبور کیا گیا۔
(جاری ہے)
‘‘
زدران حقانی نیٹ ورک کے رکن ہیں، جسے طویل عرصے سے افغانستان میں سب سے خطرناک عسکریت پسند دھڑوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
زدران اب دارالحکومت کابل کی پولیس فورس کے ترجمان کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔رواں برس اپریل میں پشتو زبان میں شائع ہونے والی ان کی 600 صفحات پر مشتمل کتاب میں انہوں نے اپنے آبائی صوبے خوست میں امریکی حملوں، فوجیوں کے 'مظالم‘ کی کہانیوں میں ڈوبے اپنے بچپن اور اپنے ملک کی 'آزادی‘ کے نام پر طالبان میں شامل ہونے کی خواہش کا ذکر کیا ہے۔
کتاب کے ایک باب '15 منٹس‘ میں وہ لکھتے ہیں، ''میں نے ہر روز خوفناک کہانیاں دیکھیں... جن میں سڑک کے کنارے مسخ شدہ لاشیں شامل ہیں۔‘‘ یہ حصہ ایک امریکی ڈرون حملے سے متاثر ہو کر لکھا گیا ہے، جس میں وہ بال بال بچے تھے۔
مہاجر فراحی نے، جو اب طالبان حکومت کے نائب وزیر اطلاعات و ثقافت ہیں ''میموریز آف جہاد: 20 ایئرز ان آکوپیشن‘‘ یعنی جہاد کی یادیں، قبضے کے 20 سال نامی کتاب لکھی ہے۔
انہوں نے کابل کے وسطی حصے میں موجود اپنے دفتر سے اے ایف پی کو بتایا، ''امریکہ نے اپنے دعوؤں کے برعکس ظالمانہ اور وحشیانہ کارروائیوں کا ارتکاب کیا ہے، ہمارے ملک کو بموں سے تباہ کیا ہے، بنیادی ڈھانچے کو تباہ کیا ہے اور قوموں اور قبائل کے درمیان اختلافات اور مایوسی کا بیج بویا ہے۔‘‘
اے ایف پی کے مطابق ان دونوں میں سے کسی بھی کتاب میں طالبان کے حملوں میں ہلاک ہونے والے ہزاروں شہریوں پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔
ان میں سے زیادہ تر ہلاکتیں خودکش بم دھماکوں میں ہوئیں، جنہوں نے تقریباﹰ دو دہائیوں تک ملک بھر میں خوف و ہراس پھیلا رکھا۔فراحی کا اصرار ہے کہ طالبان ''شہریوں اور بے گناہ لوگوں کی زندگیاں بچانے میں محتاط‘‘ تھے، جبکہ وہ مغرب نواز پولیس کے ساتھ تعاون کرنے والے افغانوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کے عمل کو ملک پر ''داغ‘‘ قرار دیتے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے طالبان کی موجودہ حکومت پر بڑے پیمانے پر زیادتیوں کا الزام عائد کیا ہے، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے خلاف، جن کے بارے میں اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ وہ ''صنفی امتیاز‘‘ کا شکار ہیں۔
2023 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب میں مہاجر فراحی نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان نے اسامہ بن لادن کی قسمت کے بارے میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کی تھی، جن کی گرفتاری یا موت کا مطالبہ واشنگٹن نے 11 ستمبر 2001ء کے حملوں بعد کیا تھا۔
ان حملوں میں تین ہزار کے قریب افراد مارے گئے تھے۔القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو 2011ء میں امریکی افواج نے ایک خصوصی آپریشن کے دوران پاکستان میں ہلاک کر دیا تھا۔
فراحی کی کتاب کا پانچ زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ اپنی کتاب کے انگریزی ورژن میں لکھتے ہیں، ''یہ بات واضح تھی… امریکیوں نے پہلے ہی افغانستان پر قبضے کی منصوبہ بندی کر لی تھی۔
‘‘وہ مزید لکھتے ہیں کہ 11 ستمبر کے حملوں کے بعد، افغانوں نے سوچا کہ ان حملوں کا ''ہمارے ملک سے کوئی لینا دینا نہیں ہوگا‘‘، لیکن جلد ہی انہیں احساس ہوا کہ افغانستان کو ''سزا‘‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
20 سال تک جاری رہنے والی اس جنگ میں طالبان عسکریت پسند افغان جمہوریہ اور اس کی افواج کی حمایت کرنے والے 38 ممالک پر مشتمل امریکی قیادت والی اتحادی افواج کے خلاف لڑتے رہے۔
اس لڑائی اور طالبان کے حملوں میں دسیوں ہزار افغان ہلاک ہوئے جبکہ تقریباﹰ چھ ہزار غیر ملکی فوجی بھی ہلاک ہوئے جن میں 2400 امریکی بھی شامل تھے۔
فراحی کے نزدیک یہ جنگ مغرب کی اس خواہش کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ اپنی ثقافت اور نظریے کو دوسری قوموں پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی کتاب ان حقائق کو ظاہر کرتی ہے، جو پہلے نہیں بتائے گئے تھے کیونکہ میڈیا، خاص طور پر مغربی میڈیا نے جنگ کی ایک مختلف تصویر پیش کی تھی۔
خالد زدران کے مطابق، طالبان کی کتابوں میں سے صرف چند ہی سوانح حیات ہیں، جو سامعین کو ''جنگ کو اندر سے‘‘ سمجھنے کی کوشش کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔
طالبان جنگجو اگست 2021ء میں دور دراز پہاڑی ٹھکانوں سے نکل کر دارالحکومت کابل کے کارپٹ والے دفاتر میں منتقل ہو گئے تھے۔
وہاں ان کی لڑائی سفارتی شکل اختیار کر چکی ہے اور ابطالبان اب اپنی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرنے کے لیے لڑ رہے ہیں۔ فراحی کو بقول، ''جنگ اب ختم ہو چکی ہے اور ہم سب کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔‘‘
ادارت: امتیاز احمد