جامعات اپنے نصاب کو جدید عالمی رجحانات کے مطابق اپ ڈیٹ کریں، ماہرین تعلیم

بدھ 25 جون 2025 16:20

ملتان (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 جون2025ء) ماہرین تعلیم نے کہا ہے کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ جامعات اپنے نصاب کو جدید عالمی رجحانات کے مطابق اپ ڈیٹ کریں، مشین لرننگ، ایتھیکل ہیکنگ، برین کمپیوٹر انٹرفیس (بی سی آئی )، ریموٹ سینسنگ، ایگریکلچرل ٹیکنالوجی اور پریسژن فارمنگ جیسے مضامین دنیا بھر میں لازمی مہارتوں میں شامل ہو چکے ہیں، مگر پاکستان میں یہ اب بھی ابتدائی سطح پر ہیں اور مختصر تحقیق یا سرٹیفکیٹ کورسز تک محدود ہیں، دنیا تیزی سے جدید ٹیکنالوجی اور پائیدار ترقی کی طرف بڑھ رہی ہے، اور عالمی روزگار کے تقاضے بھی مسلسل تبدیل ہو رہے ہیں۔

روبوٹکس، آرٹیفیشل انٹیلی جنس، ڈیٹا سائنس، الیکٹرک گاڑیوں کی انجینئرنگ، جیو اسپیشل میپنگ، سرکلر اکانومی، فِن ٹیک، فری انرجی، گیم ڈویلپمنٹ، اے آر/وی آر، سائبر سیکیورٹی، نیورو ٹیکنالوجی، سمارٹ ٹیکسٹائلز، فیشن ٹیک، بائیو انفارمیٹکس، نینو ٹیکنالوجی اور سمارٹ سٹی پلاننگ جیسے مضامین دنیا بھر میں مقبول ہو چکے ہیں تاہم پاکستان کی جامعات میں یہ مضامین ابھی تک مکمل طور پر تعلیمی نصاب کا حصہ نہیں بن سکے۔

(جاری ہے)

پاکستانی نوجوان صلاحیت اور تخلیقی ذہانت رکھتے ہیں اور اعلیٰ تعلیم کے میدان میں بھی خاطر خواہ وسعت آئی ہے۔ سابق وائس چانسلر بہائوالدین زکریا یونیورسٹی ڈاکٹر طارق انصاری نے کہا کہ قیام پاکستان کے وقت صرف پنجاب یونیورسٹی بڑی جامعہ تھی لیکن ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی ) کے قیام کے بعد تحقیقی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا اور آج ہمارے پاس 200 سے زائد جامعات اور 10 ہزار سے زیادہ پی ایچ ڈی سکالرز ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے جدید مضامین کی اہمیت کو تسلیم کرنا شروع کر دیا ہے لیکن ابھی ہم ابتدائی مرحلے میں ہیں، ہمارے پاس ماہر اساتذہ کی کمی، فنڈنگ کے مسائل اور صنعت سے کمزور روابط جیسے چیلنجز ہیں۔ نوجوان جب متعلقہ نوکریاں نہیں دیکھتے تو مایوس ہو جاتے ہیں۔ڈاکٹر انصاری کا کہنا تھا کہ پاکستان میں صلاحیت کی کوئی کمی نہیں، بس ہمیں عالمی مارکیٹ سے ہم آہنگی کی ضرورت ہے، ہم صلاحیت میں پیچھے نہیں لیکن وژن اور عملدرآمد میں ہمیں تیزی لانا ہو گی۔

ایک سرکاری جامعہ کے سینئر استاد نے کہا کہ پاکستانی نوجوان باصلاحیت ہیں لیکن ہمیں اپنے تعلیمی نصاب کو مستقبل کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہو گا، ہم آگے بڑھ رہے ہیں لیکن اس میں مزید تیزی اور صنعت سے ربط درکار ہے، روبوٹکس اور آٹومیشن بعض جامعات میں ورکشاپس یا اختیاری کورسز کے طور پر موجود ہیں، مگر باقاعدہ پروگرام کی صورت میں نہیں۔

اسی طرح الیکٹرک وہیکل انجینئرنگ بھی انجینئرنگ فیکلٹیوں میں خاطر خواہ جگہ حاصل نہیں کر سکی۔ جیو اسپیشل سائنس اور ریموٹ سینسنگ کو بھی ایک مرکزی مضمون کے بجائے مخصوص اسپیشلائزیشن سمجھا جاتا ہے۔آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور ڈیٹا سائنس نجی جامعات میں محدود پیمانے پر پڑھائی جا رہی ہیں مگر سرکاری ادارے اس میں پیچھے ہیں۔ سائبر سیکیورٹی اور ایتھیکل ہیکنگ جیسے اہم مضامین جزوی طور پر موجود ہیں لیکن مکمل پروگرامز اور جدید سرٹیفکیشنز کی کمی ہے۔

بائیو انفارمیٹکس، اسپیس ٹیکنالوجی اور نینو ٹیکنالوجی جیسے شعبے تحقیق میں تو شامل ہیں لیکن طلبہ کی عمومی رسائی اور صنعتی ضروریات سے دور ہیں۔ سمارٹ سٹی پلاننگ، اربن ٹیک اور ایگریکلچرل ٹیکنالوجی جیسی فیلڈز جو پاکستان جیسے ملک کی فوری ضرورت ہیں، بھی اکثر اداروں میں نظر انداز کی جا رہی ہیں۔ٹیکسٹائل انڈسٹری سے منسلک سمارٹ فیبرکس اور فیشن ٹیک جیسے جدید رجحانات بھی تعلیمی نصاب میں جگہ نہیں پا سکے حالانکہ یہ پاکستان کی برآمدی صنعت کو نئی جہت دے سکتے ہیں۔‘‘XL/395