فیملی ڈائنامکس: جنریشن کے مابین مضبوط پل یا گہری کھائی؟

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 26 جون 2025 14:20

فیملی ڈائنامکس: جنریشن کے مابین مضبوط پل یا گہری کھائی؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 جون 2025ء) جنریشن گیپ ایک عالمی رجحان ہے، جو نوجوان نسل اور قدامت پسند سوچ رکھنے والوں کے درمیان نظریاتی اختلافات سے جنم لیتا ہے۔ مشہور شاعر اور فلسفی خلیل جبران کا یہ قول کہ ’’ہم اپنی اولاد کو بے پناہ محبت تو دے سکتے ہیں، لیکن اپنے خیالات نہیں‘‘، پاکستانی معاشرے میں جنریشن گیپ کے مسائل کی گہری سچائی کو اجاگر کرتا ہے۔

پاکستان میں یہ فرق والدین اور بچوں کے درمیان ترجیحات اور طرز زندگی کے تضاد کی صورت میں سامنے آتا ہے، جو اکثر غلط فہمیوں اور خاندانی تناؤ کا باعث بنتا ہے۔ بعض والدین اپنی اولاد پر سخت پابندیاں عائد کرتے ہیں، ان کی نفسیاتی ضروریات کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں روبوٹ کی طرح کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

مثال کے طور پر نوجوانوں کو جدید رجحانات اپنانے یا سوشل میڈیا استعمال کرنے پر سرزنش کرنا غیر ضروری بحث کو ہوا دیتا ہے، جو رشتوں میں فاصلے بڑھاتا ہے۔

یہ نظریاتی خلیج نہ صرف والدین اور بچوں کے درمیان ہوتی ہے بلکہ جب بات دادا دادی یا نانا نانی تک جاتی ہے، تو یہ فرق اور بھی واضح ہو جاتا ہے۔ یہ تفاوت سوء تفہیمات کو جنم دیتا ہے، جو خاندانی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتا ہے اور بعض اوقات خاندانوں کی ٹوٹ پھوٹ کا باعث بنتا ہے۔ یہ معاشرتی مسائل کو بھی ہوا دیتا ہے، جن کا اثر پورے سماج پر پڑتا ہے۔

رویوں میں بدلاؤ کی ضرورت، بچوں کو یا والدین کو؟

ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی نے جنریشن گیپ کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ پاکستان میں والدین اور اولاد کے درمیان سب سے نمایاں تنازع سوشل میڈیا کے استعمال سے متعلق ہے۔ والدین کو خدشہ ہے کہ نوجوان اپنا قیمتی وقت سوشل میڈیا پر ریلز دیکھنے یا چیٹنگ میں ضائع کر رہے ہیں اور یہ کہ یہ پلیٹ فارمز گمراہی کا باعث بن سکتے ہیں۔

دوسری جانب نوجوان نسل کے لیے سوشل میڈیا سیکھنے کا ذریعہ، سماجی روابط کا پلیٹ فارم اور ان کی دلچسپیوں کا اہم حصہ بن چکا ہے۔ یہ فکری تفاوت دونوں فریقین کے درمیان غلط فہمیوں کو بڑھاتا ہے۔

جنریشن گیپ کا عملی مظاہرہ اکثر شادی جیسے اہم فیصلوں کے موقع پربھی ہوتا ہے۔ نوجوان اپنے شریک حیات کے انتخاب میں مکمل خودمختاری کے خواہشمند ہوتے ہیں، جبکہ والدین برسوں سے اپنے ذہن میں بہو یا داماد کے لیے مخصوص معیارات طے کر چکے ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر اکثر والدین ایک ایسی بہو کی خواہش رکھتے ہیں، جو گھریلو ذمہ داریاں سنبھالے اور ان کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ نکلے، جبکہ بعض اوقات ان کا بیٹا ایسی شریک حیات چاہتا ہے، جو آزاد خیال اور خودمختار ہو۔ یہ متضاد توقعات اکثر رشتوں میں تناؤ اور فاصلے پیدا کرتی ہیں۔

پاک و ہند معاشرے میں ساس اور بہو کے درمیان تنازعات جنریشن گیپ کا ایک اور مظہر ہیں۔

ساس کی جانب سے پابندیاں، جیسے کہ "مناسب لباس پہنو"، "تم اکیلی باہر کیوں گئیں؟" یا "کھانا باہر سے کیوں منگوایا؟" اور بہو کا یہ خیال کہ "میری ساس قدامت پسند اور پرانے خیالات کی ہے"، دونوں کے درمیان فاصلے بڑھاتے ہیں۔ یہ تنازعات اکثر چھوٹی باتوں سے شروع ہو کر بڑے خاندانی جھگڑوں کا روپ دھار لیتے ہیں۔

ہر دور کے رواج، ثقافت اور طرز زندگی مختلف ہوتے ہیں، لیکن خاندانی اقدار اور فیملی ڈائنامکس ہر دور میں مستقل رہتے ہیں۔

ان اقدار کو نظر انداز کر کے معاشرتی ترقی ممکن نہیں۔ والدین کو یہ سمجھنا ہو گا کہ دور بدل چکا ہے اور نوجوانوں کو سختی یا زبردستی کے بجائے محبت اور دوستی کے رویے سے سمجھایا جا سکتا ہے۔ اگر والدین اپنی اولاد پر اپنے فیصلے مسلط کرنے کی کوشش کریں گے، تو اس کے منفی نتائج خاندانی ہم آہنگی پر پڑ سکتے ہیں۔

دوسری جانب نوجوانوں کو بھی اپنے بڑوں کی اقدار اور تجربات کا احترام کرنا چاہیے۔

جنریشن گیپ کو پُل بنانے کے لیے باہمی افہام و تفہیم، کھلا مکالمہ اور ایک دوسرے کی حدود کا احترام ضروری ہے۔ والدین اور بچوں دونوں کو ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ خاندانی رشتوں کو مضبوط کیا جا سکے اور معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دیا جا سکے۔

ادارت: امتیاز احمد

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔