اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 جون 2025ء) اس کے دروازے پر ایک سادہ سی تختی یہ اعلان کرتی ہے، ''محمد اقبال (1877-1938)، پاکستان کے قومی شاعر 1907ء میں یہاں مقیم رہے۔‘‘
یہ مکان، جو پاکستانی کمیونٹی میں ''اقبال ہاؤس‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، گوگل میپس پر بھی درج ہے لیکن وہاں پہنچنے پر نہ تو کوئی عجائب گھر ملتا ہے، نہ کوئی ٹور گائیڈ اور نہ ہی اس بات کا کوئی ''واضح نشان‘‘ کہ اس مکان نے کبھی برصغیر کے مفکر اور شاعر علامہ محمد اقبال کے خوابوں کی آبیاری کی تھی۔
اقبال کا ہائیڈل برگ سے تعلق
یہ وہی جگہ ہے، جہاں متحدہ پنجاب کے سپوت علامہ اقبال نے 1907ء کے دوران ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں داخلہ لینے سے قبل جرمن زبان سیکھی، فلسفے اور ادب کے گہرے مسائل پر غور کیا اور یورپ کی فضا میں بیٹھ کر اُس ''تصورِ ملت‘‘ کی بنیاد رکھی، جو بعد میں برصغیر کی سیاسی سمت بدلنے کا باعث بنا۔
(جاری ہے)
اس مکان نے اقبال کے فکری سفر کے ابتدائی ایام دیکھے لیکن آج یہ ایک نجی رہائش کے طور پر خاموش کھڑا ہے۔
اس پر لگی تختی بھی نہ تو جرمن حکومت کی ہے اور نہ ہی پاکستانی ریاست کی بلکہ یہ 1966ء میں جرمنی میں مقیم چند پاکستانیوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے، جنہوں نے اقبال کی یاد کو اس شہر میں محفوظ کرنے کی کوشش کی۔بھارت اور پاکستان کی بے اعتنائی
اس سلسلے میں بھارت کی ایک مثال خود بخود ذہن میں آتی ہے۔ لندن کے کنگ ہنری روڈ پر واقع وہ مکان، جہاں ڈاکٹر بی آر امبیڈکر یونیورسٹی کے دنوں میں مقیم رہے، بھارتی حکومت نے 2015ء میں 3.65 ملین ڈالرز میں خرید کر اسے ایک شاندار میوزیم میں تبدیل کر دیا۔
آج یہ جگہ نہ صرف امبیڈکر کے پیروکاروں کے لیے زیارت گاہ ہے بلکہ بھارت کی عالمی فکری شناخت کا ایک عظیم استعارہ بھی بن چکی ہے۔اس کے برعکس اقبال کے آشیانے کے لیے نہ تو بھارت نے کوئی اقدام اٹھایا اور نہ ہی پاکستان نے، حالانکہ اقبال کا کلام دونوں ملکوں کے تعلیمی نصاب کا حصہ ہے اور ان کی شاعری دونوں جانب کے نوجوانوں کو متاثر کرتی ہے۔
تاہم ہائیڈل برگ کا یہ مکان گمنامی کی چادر اوڑھے ہوئے ہے۔علامہ اقبال کی لاہور میں ہاسٹل لائف، رہائش گاہیں اور شاعری
علمی ماہرین کے مطابق پاکستان نے اقبال کو قومی شاعر کا درجہ دیا جبکہ بھارت میں ان کا ترانہ ''سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘ فوجی دھنوں اور اسکولوں کی تقریبات کی زینت بنتا ہے، اس کے باوجود دونوں ممالک نے اس تاریخی مقام کو نظر انداز کر دیا۔
پروفیسر فتح محمد ملک، جو 1984 سے 1988 تک ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں اردو کے استاد رہے، بتاتے ہیں کہ پاکستانی کمیونٹی یہاں اقبال کا مجسمہ نصب کرنا چاہتی تھی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''ہم نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا لیکن جواب ملا کہ مجسمے کی بجائے صرف تختی پر اکتفا کیا جائے۔ شاید وہ اقبال کو بطور نظریاتی ماڈل پیش کرنے سے گریزاں تھے۔
‘‘ان کے مطابق پاکستان میں اقبال کے فلسفے کو ریاستی سطح پر تسلیم تو کیا گیا لیکن اسے عملی طور پر اپنایا نہیں گیا۔ پروفیسر ملک مزید کہتے ہیں، ''سرمایہ دار، جاگیردار اور بعض مذہبی حلقے اقبال کے خیالات سے متفق نہیں کیونکہ وہ ان کے خوابوں سے خوفزدہ ہیں۔‘‘
ایک تعلیمی منصوبہ، جو خاموش ہو گیا
سن 1977 میں اقبال کے صد سالہ جشن کے موقع پر ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں ''اقبال پروفیشنل فیلوشپ‘‘ کے نام سے ایک تعلیمی منصوبہ شروع کیا گیا تھا، جس کا مقصد پاکستان اور جرمنی کے درمیان علمی تبادلے کو فروغ دینا تھا۔
تاہم سن 2014 کے بعد یہ منصوبہ بند ہو گیا۔ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے موجودہ اُردو پروفیسر آرین ہوپ کہتے ہیں، ''پاکستانی حکومت کی غیر سنجیدگی اور بدلتی ہوئی سیاسی ترجیحات کی وجہ سے اس منصوبے کو دوبارہ فعال کرنے کی کوششیں ناکام رہیں۔‘‘
جرمنی میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کی خواہش ہے کہ اقبال ہاؤس کو ایک عجائب گھر میں تبدیل کیا جائے، جہاں طلبہ، سیاح اور فکری جستجو رکھنے والے اقبال کی زندگی اور فلسفے کو سمجھ سکیں۔
تاہم پروفیسر آرین ہوپ کے مطابق بدقسمتی سے اب یہ خواب ''کاغذوں میں دفن‘‘ ہو چکا ہے۔بھارت کی بے رخی
بھارت کی جانب سے اس مقام کو نظر انداز کرنا بھی حیران کن نہیں۔ نئی دہلی کے معروف اسلامی اسکالر پروفیسر اختر الواسع کہتے ہیں، ''جب پاکستان نے اقبال کو قومی آئیکن کے طور پر اپنایا تو بھارت نے غیر محسوس طریقے سے خود کو اس فکری ورثے سے الگ کر لیا۔
اگر اقبال کو صرف شاعرِ مشرق کے طور پر دیکھا جاتا، تو وہ آج بھی دونوں ملکوں کا مشترکہ سرمایہ ہوتے۔‘‘ان کے مطابق اقبال کو صرف ایک ملک سے منسوب کرنا ان کی عالمگیر شاعری اور فلسفے کے ساتھ ناانصافی ہے، کیونکہ وہ 1938ء میں اپنی وفات سے قبل، یعنی پاکستان کے قیام سے 12 سال پہلے ''پوری دنیا کے لیے مفکر‘‘ تھے۔
دریائے نیکر کے کنارے ایک نظم
اقبال کی نظم ''ایک شام، دریا نیکر کے کنارے‘‘، جو انہوں نے ہائیڈل برگ میں لکھی، آج بھی اس شہر سے ان کے تعلق کی ایک زندہ علامت ہے۔
اس نظم کا جرمن ترجمہ ایک پتھریلی تختی پر دریائے نیکر کے کنارے کندہ ہے، جو شاید اقبال کے اس شہر سے ربط کی واحد نشانی ہے۔علمی حلقوں کے مطابق اقبال کا تصورِ خودی اور ان کی فکری میراث کو عالمی سطح پر متعارف کرانے کا ایک سنہری موقع ہائیڈل برگ کے اس 'خاموش مکان‘ میں بند ہے۔ دریائے نیکر کے کنارے کھڑا یہ آشیانہ اُس فکری ورثے کا ایک ''بے آواز گواہ‘‘ ہے، جسے نظرانداز کرنا پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کی ناکامی ہے۔