اسمبلی میں کرسیاں مارنا اور مائیک اکھاڑنا احتجاج نہیں، قانون کو راستہ بنانا چاہیے‘ اعظم نذیر تارڑ

پیر 7 جولائی 2025 18:05

اسمبلی میں کرسیاں مارنا اور مائیک اکھاڑنا احتجاج نہیں، قانون کو راستہ ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 جولائی2025ء) وفاقی وزیر قانون اعظیم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ احتجاج کرنا اپوزیشن کا حق ہے لیکن اسمبلی میں کرسیاں مارنا اور مائیک اکھاڑنا احتجاج نہیں، اس کے لیے قانون کو اپنا راستہ بنانا چاہیے،اسپیکر کے اختیارات لا محدود ہیں، وہ ہائوس کے سربراہ ہیں، انکے پاس نظم و ضبط قائم رکھنے، ضابطہ اخلاق کی نگرانی کرنے اور آئینی امور پر فیصلے کرنے کا مکمل اختیار ہے،وہ جمہوری روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے بہتر راستہ ہی نکالیں گے، آئین پاکستان 1973ء میں درج آرٹیکلز مساوات، آزادی اور حقوق کی ضامن ہیں،آئین 1973ء کے آرٹیکل 36کا تعلق پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ سے ہے، یہ آرٹیکل پاکستان کے آئین کے اس باب میں شامل ہے جو ریاست کے بنیادی اصولوں سے متعلق ہے اور یہ ریاست کی اخلاقی و سماجی ذمہ داریوں کی نشاندہی کرتا ہے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوںنے لاہور میں سول سروسز اکیڈمی میں منعقدہ ایک تقریب سے بطور مہمان خصوصی خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔انہوں نے پنجاب اسمبلی میں 26اراکین کی معطلی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سپیکر کے پاس وہی اختیارات ہیں جو گھر کے بڑے کے پاس ہوتے ہیں، اگر آپ اس حلف کی پامالی کرتے ہیں تو سپیکر کے پاس اختیارات ہیں کہ کسی بھی ممبر کو معطل کر سکیں۔

سپیکر کو درمیان میں بٹھایا جاتا ہے کہ اسے غیر جانبدار ہونا چاہئے، احتجاج اپوزیشن کا حق ہے لیکن کرسیاں مارنا اور مائیک اکھاڑنا احتجاج نہیں، سپیکر جمہوری روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے گھر کے بڑے سربراہ کی طرح بہتر راستہ ہی نکالیں گے۔اسپیکر کے پاس نظم و ضبط قائم رکھنے، ضابطہ اخلاق کی نگرانی کرنے اور آئینی امور پر فیصلے کرنے کا مکمل اختیار ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے واضح کیا کہ اسمبلی کے تمام اراکین نے آئین پاکستان کے تحت حلف لیا ہے اور وہ پابند ہیں کہ آئینی تقاضوں کے مطابق اپنے فرائض انجام دیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر 26اراکین اسمبلی نے ضابطے کی خلاف ورزی کی ہے تو ان کے خلاف ریفرنس چیف الیکشن کمشنر کو بھیجا جا سکتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اسپیکر کا کردار غیر جانبدار ہونا چاہیے اور اگر حکومتی اراکین بھی اسمبلی میں حدود پار کریں گے تو اسپیکر کو چاہیے کہ غیر جانبداری کا مظاہرہ کرے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ احتجاج اپوزیشن کا جمہوری حق ہے، لیکن کرسیوں کا توڑ پھوڑ کرنا یا مائیک اکھاڑنا احتجاج نہیں بلکہ بدنظمی ہے۔ایسے واقعات پر قانون کو اپنا راستہ اپنانا چاہیے، تاکہ ایوان کا تقدس اور آئینی بالادستی قائم رہ سکے۔قبل ازیں انہوںنے سول سروسز اکیڈمی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کو یہ احساس دلا نا ہے کہ ملک کو ہم سب نے مل کر چلانا ہے، ہمیں مل کر معاشرت کی تعمیر کے لئے سوچنا ہوگا، پاکستان کو اس وقت محبتیں بانٹنے والوں کی ضرورت ہے، نہ کہ حکم چلانے والوں کی۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہم سب پاکستانی ہیں، چاہے اکثریت ہو یا اقلیت، ہمارا ایک ہی تعارف ہے،جھنڈے میں موجود سفید رنگ صرف ایک علامت نہیں بلکہ یہ رنگ ہمارے رویوں میں بھی جھلکنا چاہیے،وزیراعظم کی ہدایت پر اس بات کی یقین دہانی کرانے کے لئے موجود ہوں کہ پاکستان کا وہ خواب جو قائداعظم محمد علی جناح اور ہمارے آئین نے دیکھا، وہ صرف ایک خواب نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے،ہم سب ایک قوم ہیں اور ہمیں اس پاکستان کی طرف بھی دیکھنا ہوگا جو پسماندہ ہے، جسے ہماری توجہ کی ضرورت ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ سول سروس اکیڈمی نے قوم کے معمار اور خدمت گزار پیدا کرنے ہیں، یہ وہ ادارہ ہے جہاں سے ایک مشن لے کر نکلنا ہے، یہ وہ دور نہیں رہا جب ہم نوآبادیاتی دور کے انداز میں معاملات دیکھتے تھے، اب محبت، ہمدردی اور گزارشات کی ضرورت ہے، نفرت کی نہیں، سول سروسز اکیڈمی وہ درسگاہ ہے جہاں سے ایسے افسران کو نکلنا چاہیے جو قانون کے نفاذ کے ساتھ ساتھ محبت، برداشت، اور رواداری کے علمبردار ہوں۔

سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے نیشنل کمیشن برائے اقلیتی حقوق کے قیام کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ یہ کمیشن آئین پاکستان کی شقوں 20، 26، 27اور 36کے تحت اقلیتوں کے تحفظ، ان کے مساوی مواقع اور شمولیت کو یقینی بنانے کے لئے بنایا گیا ہے۔ یہ آئینی شقیں صرف کاغذ پر درج نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہیں، جن پر عملدرآمد ہماری قومی ترقی کی بنیاد ہے۔وزیر قانون نے کہا کہ اگر ہم سب مل کر دل سے کام کریں تو انشااللہ وہ وقت دور نہیں جب اقلیتوں کے لئے مخصوص اقدامات کی ضرورت نہیں رہے گی اور ہر تیسرا یا چوتھا افسر اقلیتی برادری سے ہوگا۔

انہوں نے اکیڈمی کے منتظمین، خصوصی فنکاروں، اور تمام شرکا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پاکستان کی ترقی اور بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے دعا کی۔تقریب سے سینیٹر ڈاکٹر رمیش کمار نے خطاب میں کہا کہ پاکستان کے آئین میں مینارٹی کے بجائے نان مسلم کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، کیونکہ مینارٹی تنگ نظری کو ظاہر کرتا ہے، میری درخواست ہے کہ اکیڈمی سمیت تمام اداروں میں نان مسلم کا لفظ رائج کیا جائے۔

سینیٹر رمیش کمار نے کہا کہ سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ50فیصد ہے، لیکن مقابلے کے امتحانات میں عمر کی حد کو 35 سال کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ نوجوان مواقع حاصل کر سکیں۔ اس موقع پر سول سروسز اکیڈمی کے ڈی جی فرحان عزیز خواجہ نے اکیڈمی کے قیام کے اغراض و مقاصد اور اس کے کردار پر روشنی ڈالی ۔