توانائی پالیسیاں معیشت کوتباہی کی طرف لے جا رہی ہیں،میاں زاہد حسین

ملکی صنعت جان لیوا فیصلوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں،صدر کراچی انڈسٹریل الائنس

بدھ 9 جولائی 2025 22:47

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 جولائی2025ء)نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر، ایف پی سی سی ائی پالیسی ایڈوائزری بورڈ کے چیئرمین اورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ موجودہ توانائی پالیسی اورٹیکس اقدامات نے ملکی صنعتوں کے لیے زمین تنگ کردی ہے۔

یہ پالیسیاں ترقی کا ذریعہ بننے کے بجائے معیشت کے لیے زہرثابت ہورہی ہیں، جس کے نتیجے میں بہت سی صنعتوں کا چلنا محال ہوگیا ہے۔ ارباب اختیاربجٹ اقدامات پرغور کریں اور توانائی پالیسیوں کوملکی حالات اورمفادات کے مطابق ڈھالیں۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ فرنس آئل پرعائد پیٹرولیم لیوی اورکلائمٹ سپورٹ لیوی کے بعد اسکی کل مالیت کا ساٹھ فیصد ٹیکسوں پرمشتمل ہو گیا ہے جوحیران کن ہے۔

(جاری ہے)

انھوں نے کہا کہ ماضی میں بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ کے دوران صنعتوں نے کیپٹو جنریشن کے ذریعے خود بجلی پیدا کرکے زندہ رہنے کی کوشش کی کچھ نے گیس اورکچھ نے فرنس آئل استعمال کیا۔ مگرحکومت نے ائی پی پی منصوبے لگا کراضافی بجلی پیدا کی اورصنعتوں کومہنگی بجلی خریدنے پرمجبورکردیا۔ اب جب گیس مہنگی کی گئی توصنعتیں دوبارہ فرنس آئل استعمال کرنے لگیں جسے اب اتنا مہنگاکردیا گیا ہے کہ صنعت چلانا ممکن نہیں رہا۔

وہ صنعتیں جوکولنگ سسٹمزپرانحصارکرتی ہیں یا جنہیں بجلی مسلسل درکارہوتی ہے شدید مشکلات کا شکارہیں۔ نہ صرف بجلی مہنگی ہوگئی ہے بلکہ متبادل ذرائع پرمنتقلی بھی مشکل بنا دی گئی ہے جس سے کارخانہ مالکان کواضافی لاگت برداشت کرنا پڑرہی ہے جوصنعتوں کوتباہ کرنے کے مترادف ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ مقامی ریفائنریاں بھی اب فرنس آئل کے خریدارنہ ہونے کی وجہ سے مشکلات میں ہیں کیونکہ طلب میں کمی کے سبب اس کی فروخت مشکل ہوگئی ہے۔

فرنس آئل برآمد کرنا مہنگا اورپیچیدہ عمل ہے اوراگرریفائنریاں پیداوارکم کریں توپیٹرول اورڈیزل کی مقامی فراہمی متاثرہوسکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ گیس کمپنیاں بھی بحران کا شکارہیں۔ بہت سی صنعتوں نے گیس استعمال تقریباً ترک کردیا ہے مگرحکومت مہنگی درآمدی گیس خریدنے پربضد ہے۔ مقامی پیداوارکومحدود کیا جا رہا ہے تاکہ درآمدی گیس کے لئے جگہ بنائی جا سکے۔

میاں زاہد حسین نے کہا کہ تمام فیصلوں کی ذمہ داری آئی ایم ایف پر ڈالنا درست نہیں ہے کیونکہ کئی پالیسیاں حکومت نے خود بنائی ہیں جن کا آئی ایم ایف سے کوئی تعلق نہیں۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ اگرحکومت معیشت کو 412 ارب ڈالر سے ترقی دے کر اسے ایک سال میں 600 ارب ڈالر تک پہنچانے کے منصوبے بنائے تو ملک حقیقی معنوں میں ترقی کر سکتا ہے لوگوں کو بہتر روزگار میسر آ سکتا ہے جبکہ ایف بی ار کو بزنس کمیونٹی کو ہراساں کیے بغیر اضافی ٹیکس امدن ہو سکتی ہے اس لیے وزیراعظم اور حکومت اس بات پر غور کریں کہ کہیں ہم 51 ارب ڈالر کے ٹیکسوں کے حصول کی کوشش میں حقیقی قومی معاشی ترقی پر سمجھوتا تو نہیں کر رہے۔