غزہ: خوراک کی اسرائیلی تقسیم یا فلسطینیوں کے لیے موت کا پھندا؟

یو این بدھ 16 جولائی 2025 20:00

غزہ: خوراک کی اسرائیلی تقسیم یا فلسطینیوں کے لیے موت کا پھندا؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 16 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے بتایا ہے کہ غزہ میں حالیہ ہفتوں کے دوران خوراک کے حصول کی کوشش میں کم از کم 875 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ایسی بیشتر ہلاکتیں غزہ امدادی فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) کے نجی مراکز پر ہوئیں۔

دفتر کے ترجمان ثمین الخیطان کے مطابق، 13 جولائی تک 674 افراد 'جی ایف ایچ ' کے مراکز پر فائرنگ کا نشانہ بنے جبکہ 201 اموات اقوام متحدہ اور اس کے شراکت داروں کے امدادی قافلوں سے خوراک اتارنے کی کوشش میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ اور لڑائی جھگڑے کے واقعات کا نتیجہ تھیں۔

Tweet URL

ہلاکتوں کا تازہ ترین واقعہ گزشتہ روز صبح نو بجے جنوبی علاقے رفح میں 'جی ایچ ایف' کے امدادی مرکز پر پیش آیا جہاں اسرائیلی فوج نے خوراک کے حصول کی جدوجہد کرنے والے فلسطینیوں پر گولہ باری کی۔

(جاری ہے)

ترجمان کے مطابق اس واقعے میں دو افراد ہلاک اور کم از کم نو زخمی ہوئے جنہیں انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کے ہسپتال میں پہنچایا گیا جہاں ہفتے کو 130 سے زیادہ ایسے زخمی لائے گئے تھے جن کے جسم پر گولیوں کے نشانات پائے گئے۔

جان لیوا بھوک

فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) نے خوراک کے حصول کی کوشش کرنے والے شہریوں کی ہلاکتوں پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ادارے کی ڈائریکٹر اطلاعات جولیٹ ٹوما نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کے مکمل محاصرے کا نتیجہ شدید غذائی قلت اور بچوں کی ہلاکتوں کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کو تقریباً چار ماہ سے علاقے میں امدادی سامان لانے کی اجازت نہیں دی جا رہی جس سے بچوں میں غذائی قلت بڑھتی جا رہی ہے۔ مصر اور اردن میں امدادی سامان کے 6,000 ٹرک تیار کھڑے ہیں جو تین گھنٹے میں غزہ پہنچ سکتے ہیں جہاں جان لیوا بھوک پھیلی ہے۔

ان ٹرکوں پر خوراک کے علاوہ صابن سمیت صحت و صفائی کا سامان اور ادویات بھی موجود ہیں۔ ان چیزوں کی غزہ کے 20 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو اشد ضرورت ہے جن میں نصف تعداد بچوں کی ہے۔

مغربی کنارے میں 'خاموش جنگ'

مقبوضۃ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں اسرائیلی آباد کاروں اور سکیورٹی فورسز کے تشدد سے فلسطینیوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے اور گزشتہ چند ہفتوں سے ان واقعات میں شدت آ گئی ہے۔

رواں سال کے آغاز پر مغربی کنارے کے شمالی حصے میں اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں فلسطینیوں کے سیکڑوں گھروں کو مسمار کیا جا چکا ہے جس کے نتیجے میں 30 ہزار لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔

ثمین الخیطان نے کہا ہے کہ قابض طاقت کی حیثیت سے اسرائیل کی ذمہ داریوں کے بارے میں بین الاقوامی قانون بالکل واضح ہے۔ مقبوضہ علاقے کی آبادی میں مستقل طور پر تبدیلی لانا جنگی جرم اور نسلی صفائی کے مترادف ہے۔

جولیٹ ٹوما کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو خاموش جنگ کا سامنا ہے جس میں ان کی نقل و حرکت پر کڑی پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں اور لوگوں کے روزگار ختم ہونے سے غربت بڑھ رہی ہے۔ حالیہ عرصہ میں جنین، تلکرم اور نورشمس پناہ گزین کیمپوں پر اسرائیلی فوج کی کارروائی میں بہت بڑے پیمانے پر لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑی ہے جس کی 1967 کے بعد کوئی مثال نہیں ملتی۔