اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 جولائی 2025ء) حکومت پنجاب نے پولیس اصلاحات کا بیڑہ اٹھاتے ہوئے اپریل 2025 میں سی سی ڈی (کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ) کا ایک نیا اور خصوصی ادارہ قائم کیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس کے مقاصد بھی بالکل وہی ہیں، جو کہ پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ہیں۔ یعنی جرائم کا خاتمہ اور عوام کے جان و مال کی حفاظت کرنا۔ چوں کہ عوام کے ذہنوں میں ساٹھ، ستر سالوں سے پولیس کا ایک خراب تاثر موجود ہے، اس لیے بہت سے لوگ اس کے قیام کو بھی مشکوک نظروں سے دیکھ رہے ہیں اور اسے بھی روایتی پولیس جیسا ہی قرار دے رہے ہیں۔
پنجاب کے ہر ضلع میں 'سی سی ڈی‘ پولیس اسٹیشن قائم کیے جائیں گے۔ 'سی سی ڈی‘ کے قیام کے حوالے سے خصوصی طور پر جو مقاصد متعین کیے گئے ہیں ان میں چوری، ڈکیتی، اغوا اور قتل وغیرہ جیسے جرائم سے لے کر بلیک میلنگ اور زمینوں پر قبضے جیسے جرائم کا خاتمہ شامل ہے۔
(جاری ہے)
'سی سی ڈی‘ کو جدید 'اے آئی‘ اور ڈرون ٹیکنالوجی سے آراستہ کیا گیا ہے، جس میں ڈیجیٹل کرائم ڈیٹا سسٹم کے ذریعے مجرموں کی شناخت اور گرفتاری کی جا سکے گی۔
سی سی ڈی کے قیام کے بعد ان پر تنقید بھی شروع ہو چکی ہے۔ ملتان میں سی سی ڈی کے اہلکاروں پر ایک باپ بیٹے کو قتل کرنے کی ایف آئی آر بھی درج ہو چکی ہے اور کاہنہ میں مبینہ پولیس مقابلے میں سی سی ڈی کی زیر حراست روحیل مسیح عرف سنی کی ہلاکت کا واقعہ بھی رپورٹ ہوا ہے۔ کسی کا 'پولیس مقابلے میں مارا جانا‘ ہمارے نظام انصاف پہ سوال ہے کہ اگر ملزم کو ایسے ہی 'مقابلے‘ میں قتل کرنا ہے تو پھر اس ملک کے قانون اور عدالتوں کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔
پولیس کے پاس موجود بندوق کا مقصد انتہائی ضرورت کے وقت اس کا استعمال ہونا چاہیے، نا کہ رات کے اندھیرے میں 'پولیس مقابلوں‘ کے ذریعے کوئی 'اسکور‘ پورا کیا جائے کون جانے مجرم قرار دے کر قتل ہونے والا واقعی مجرم تھا بھی یا نہیں اور ایسی کیا نوبت آ گئی تھی کہ اسے عدالتی کارروائی سے گزار کر سزا دینے کے بجائے موقع پر قتل کرنا ہی ضروری تھا؟ جعلی پولیس مقابلوں کے حوالے سے ملک کے طول و عرض میں ایک تاریخ بکھری پڑی ہے۔
’سی سی ڈی‘ کے حوالے سے عوام میں ملا جلا رجحان ہے، بارہا کہا جاتا رہا ہے کہ پولیس کو عوام دوست اور موثر بنانے کے لیے اس کے نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ تو ایسے میں ایک نیا ادارہ کھڑا کر دینا کیا صرف کاسمیٹک تبدیلی نہیں؟
یہ نہیں کہا جا سکتا کہ عوام نے پنجاب پولیس سے بہتری کی امید چھوڑ دی ہے، بہت سے لوگوں کو امید ہے کہ 'سی ڈی سی‘ پولیس بہتری کی جانب ایک قدم ثابت ہو گا، کیوں کہ دیہی علاقوں میں پولیس کی 'کارکردگی‘ اتنا رپورٹ بھی نہیں ہو پاتی۔
با اثر شخصیات پولیس کو جس طرح استعمال کرتی ہیں اور مجبور اور بے کس عوام جس طرح تھانوں سے خوف زدہ ہو کر زندگی گزارتے ہیں۔ کہیں انہیں رشوت دینی پڑتی ہے اور کہیں بھتا، تو کہیں ناکردہ گناہوں کی پاداش میں اپنی جان و مال اور عزت و آبرو تک گنوانی پڑ جاتی ہے۔اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ کسی بھی معاشرے میں امن و امان اور جان و مال کے تحفظ کے نظام کے سارے بگاڑ کی کڑی پولیس کی خرابیوں سے ہی شروع ہوتی ہے، کیوں کہ ہماری ریاست نے اس اہم ترین فورس کو اس کے اصل مقصد سے دور کر کے اپنے مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بنا لیا ہے، جس میں سب سے پہلے اعلیٰ افسران اور با اثر لوگوں کا تحفظ ہے۔
برسر اقتدار سیاسی جماعتیں پولیس کو اپنے مخالفین کو خوف زدہ کرنے اور انہیں پریشان کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں، جس سے پولیس کا آزاد اور با وقار کردار بری طرح مجروح ہوتا ہے۔ کسی بھی افسر کے لیے حکومت کے ایسے احکامات کو رد کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً یہ بگاڑ پھر پھیلتا چلا جاتا ہے۔ پولیس کے اختیارات جو بہت احتیاط سے جرائم پیشہ اور مشکوک افراد اور گروہ کے خلاف استعمال ہونے چاہییں وہ عام شہریوں کے خلاف استعمال ہونے لگتے ہیں۔
ملک کے مختلف علاقوں میں ہماری پولیس کو دہشت گردی جیسی سنگین دشواریوں کا سامنا ہے، اس کے باوجود بھی ریاستی سطح پر پولیس کی جانب توجہ نہیں دی جا رہی، بلکہ صورت حال بگڑنے پر رینجرز اور 'ایف سی‘ جیسے اداروں کو تعینات کر دیا جاتا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ ہمارے ادارے نہیں ہیں، ہمیں ضرور ملک میں امن و امان کے لیے ضرورت پڑنے پر ان اداروں کی خدمات حاصل کرنی چاہیے لیکن یہ بندوبست عارضی ہونا چاہیے۔
کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ہم یہ سب باتیں 'پولیس‘ جیسے ادارے کے حوالے سے کر رہے ہیں جو ریاست کی جانب سے ہمارے گھروں، گلی محلوں اور شہروں اور دیہاتوں میں مجرموں سے ہمیں بچانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ لوگ تو یہ سوچنے اور کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ یہ چاہتے ہیں کہ جرائم ہوتے رہیں تا کہ سسٹم پہ ان کی گرپ بنی رہے، ان کی یہ سوچ پولیس کی کارکردگی کا نتیجہ ہے، جو وہ صبح شام اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ عوام کے 'سی سی ڈی‘ کے حوالے سے مثبت تاثر کو سامنے رکھتے ہوئے کام کیا جائے تو اس حوالے سے شکوک رکھنے والے حلقے بھی اپنی رائے پر ضرور نظر ثانی کریں گے۔جب تک پولیس کو صرف پولیس کے کاموں تک محدود نہیں کیا جائے گا۔ ان کے رویوں کی اصلاح نہیں کی جائے گی، تب تک کوئی بھی مثبت بدلاؤ بہت مشکل ہے، بصورت دیگر پولیس بااثر افراد کی ذاتی فورس اور عوام دشمن مخلوق کے طور پر جانی جاتی رہے گی۔
ہر ناخوش گوار واقعے اور امن و امان کی سنگینی پر دیگر اعلیٰ فورسز تعینات ہوتی رہیں گی، اس سب کے لیے سب سے پہلے حکومت کو 'ول‘ دکھانا ضروری ہے ورنہ 'سی ڈی سی‘ پولیس ہو یا عام پولیس۔ امن و امان کے لیے خطیر رقم یونہی بے مصرف ہوتی رہے گی۔پولیس کا بنیادی کام شہریوں کے جان و مال و بنیادی حقوق کا تحفظ اور سماج دشمن عناصر کی بیخ کنی کرنا ہوتا ہے لیکن عملاً یہ ادارہ خوف اور دہشت کی علامت زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا سی سی ڈی کے قیام سے پولیس کی ساکھ بہتر ہو جائے گی؟
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔