اضافی ٹیرف ڈیوٹیوں کے علاوہ لگایا گیا، امریکی ٹیرف سے ٹیکسٹائل صنعت میں تشویش کی لہر

ماہرین کی جانب سے عالمی مارکیٹ میں ویتنام اور بنگلہ دیش جیسے علاقائی حریفوں کے مقابلے میں پاکستان کے شیئر اور برآمدی مسابقت متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کردیا گیا؛ رپورٹ

Sajid Ali ساجد علی اتوار 3 اگست 2025 10:34

اضافی ٹیرف ڈیوٹیوں کے علاوہ لگایا گیا، امریکی ٹیرف سے ٹیکسٹائل صنعت ..
کراچی ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 03 اگست 2025ء ) پاکستان کی ویلیو ایڈیڈ ٹیکسٹائل صنعت نے امریکہ کی جانب سے برآمدات پر 19 فیصد نئے ٹیرف کے نفاذ پر گہری تشویش کا اظہار کردیا۔ انگریزی اخبار ڈان کے مطابق 2 اپریل کو امریکہ نے پاکستانی مصنوعات پر 29 فیصد ریسیپروکل ٹیرف عائد کیا تھا جس کو بعد میں 90 دن کے لیے مؤخر کرکے 10 فیصد عبوری ٹیرف پر کر دیا گیا، تاہم یکم اگست سے نیا 19 فیصد ٹیرف نافذ کیا گیا ہے، حکومت نے اس فیصلے کو کامیابی قرار دیا لیکن پاکستان کی ویلیو ایڈیڈ ٹیکسٹائل صنعت نے امریکا کی جانب سے پاکستانی برآمدات پر 19 فیصد نئے ٹیرف کے نفاذ پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے، پاکستان ٹیکسٹائل کونسل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر حسن شفقات نے مایوسی کا اظہار کیا کہ ہم 10 سے 15 فیصد ٹیرف کی امید کر رہے تھے۔

(جاری ہے)

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نیا ٹیکس برآمدات میں ممکنہ اضافے کی تمام امیدوں پر پانی پھیر سکتا ہے کیوں کہ یہ اضافی ٹیرف پہلے سے موجود ڈیوٹیوں کے علاوہ لگایا گیا ہے، جو متوقع حد سے کہیں زیادہ ہے، اس سے ویتنام اور بنگلہ دیش جیسے علاقائی حریفوں کے مقابلے میں مارکیٹ میں پاکستان کی حصہ داری اور تجارتی تعلقات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے کیوں کہ ٹیکس میں اضافے اور مقامی پیداواری لاگت میں مسلسل اضافے کی وجہ سے عالمی منڈی میں مسابقت مشکل ہوتی جا رہی ہے، بڑھتی ہوئی لاگت اور نیا ٹیرف برآمدات میں کمی کا باعث بن سکتے ہیں، یہ معاہدہ فائدہ مند تو نہیں اس کو شاید غیر مؤثر ہی کہا جا سکتا ہے۔

کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر جاوید بلوانی نے بتایا کہ امریکہ میں پاکستان کے بڑے حریف ویتنام اور بنگلہ دیش کم پیداواری لاگت کی وجہ سے اس ٹیرف سے متاثر نہیں ہوں گے، جب کہ پاکستانی صنعت پہلے ہی 10 سے 20 فیصد زیادہ لاگت پر کام کر رہی ہے، کپاس کے دھاگے اور کپڑے پر نئے ٹیکسز کی تجاویز سے برآمدی مصنوعات کی لاگت مزید بڑھے گی، حالاں کہ درآمدی یارن اعلیٰ معیار فراہم کرتا ہے جو عالمی مسابقت میں ضروری ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ پاکستان نے 2 ارب 90 کروڑ ڈالر کے تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لیے امریکہ سے 1 ارب ڈالر کی کپاس، 1 ارب 20 کروڑ ڈالر کے تیل سے متعلق مصنوعات اور سویا بین سمیت دیگر اشیا درآمد کرنے کی پیشکش کی تھی، حسن شفقات کہتے ہیں کہ پاکستان جیسے ممالک کو 19 تا 20 فیصد ٹیرف کا سامنا ہے اور بھارت پر 25 فیصد ٹیرف لاگو ہے لیکن بھارت کی معیشت مستحکم ہونے کی وجہ سے وہاں کی حکومت اپنے برآمدکنندگان کو سبسڈی، ریبیٹ اور بغیر سود قرضوں سے مدد دیتی ہے اس لیے یہ فرق کم ہو جاتا ہے۔

ٹیکسٹائل برآمدکنندگان کو اس بات پر بھی تشویش ہے کہ کہیں ٹیرف کے ساتھ کچھ شرائط نہ آ جائیں، جن میں خاص طور پر رول آف اوریجن یعنی مصنوعات کے اصل ملک کی تصدیق کے قوانین شامل ہیں کیوں کہ صدر ٹرمپ کے خطوط میں خاص طور پر ذکر ہے کہ اگر کوئی مصنوعات دوسرے ملک سے ٹرانس شپ ہو کر امریکہ پہنچتی ہیں ہو تو اس پر اضافی ڈیوٹی لگے گی جو پاکستان، ویتنام، انڈونیشیا جیسے ممالک کے لیے مسائل پیدا کرسکتی ہے جب کہ چین اور بھارت ممکنہ طور پر اپنی مصنوعات کو یورپ اور برطانیہ کی منڈیوں کی طرف موڑ سکتے ہیں جس سے پاکستان کے لیے ان متبادل مارکیٹس میں مسابقت مزید سخت ہو جائے گی۔

پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ خرم مختار نے زور دیا ہے کہ حکومت کو فوری طور پر ٹیکس اصلاحات، توانائی نرخوں میں کمی، ریفنڈ نظام کی بہتری اور قرض تک آسان رسائی جیسے اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ یہ صنعت عالمی منڈی میں قدم جما سکے، امریکی صارفین کو بھی اس نئے ٹیرف کا اثر محسوس ہوگا جس سے ممکن ہے مجموعی طلب میں کمی آئے لیکن پاکستان کے برآمدکنندگان کے پاس مزید غفلت کی گنجائش نہیں ہے۔