اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 اگست 2025ء) اقوام متحدہ کے ادارے انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) نے اتوار کو بتایا کہ افریقی مہاجرین کو لے جانے والی ایک کشتی یمن کے ساحل کے قریب ڈوب گئی، جس کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے۔
اب تک ہمیں کیا معلوم ہے؟
ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق کشتی میں سوار تقریباً 154 افراد میں سے 68 ہلاک ہو گئے، جب کہ 74 تاحال لاپتہ ہیں۔
کشتی میں سوار تمام افراد کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ ایتھوپیا کے شہری تھے۔
جنوبی یمنی صوبے ابین میں درجنوں لاشیں ساحل پر آ گئی ہیں۔ ابین کی مقامی اتھارٹیز امدادی کارروائیوں میں حصہ لے رہی ہیں۔
آئی او ایم کے یمن میں سربراہ عبد الستار اسویف نے اے پی کو بتایا کہ 12 مہاجرین کشتی الٹنے کے باوجود زندہ بچ گئے۔
(جاری ہے)
ایتھوپیائی یمن میں کیوں ہیں؟
خانہ جنگی کے ایک عشرے بعد بھی یمن ان مہاجرین کے لیے ایک اہم راستہ ہے جو امیر عرب ممالک جیسے کہ سعودی عرب میں بہتر زندگی کی تلاش میں جاتے ہیں۔
سعودی عرب میں ایک بڑی ایتھوپیائی کمیونٹی موجود ہے، جب کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین میں بھی ایتھوپیائی تارکین وطن کی بڑی تعداد رہتی ہے۔
حالانکہ یمن کے سفر کے دوران، مہاجرین کو ایران سے وابستہ حوثیوں اور اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت کے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے خطرات کا سامنا ہوتا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی 2020 کی رپورٹ کے مطابق، کووڈ-19 وبا کے دوران حوثیوں نے ایتھوپیائی مہاجرین کو قتل کیا اور زبردستی ملک بدر کیا۔
ایتھوپیا میں غربت کی شرح بہت زیادہ ہے اور ملک ابھی تک شورش زدہ علاقے ٹگرے میں ہونے والی خانہ جنگی کے اثرات سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔
آئی او ایم کی ایک رپورٹ کے مطابق، صرف 2024 میں ساٹھ ہزار مہاجرین یمن پہنچے۔
آئی او ایم کا کہنا ہے کہ 'قرن افریقہ‘ اور یمن کے درمیان کا راستہ دنیا کے مصروف ترین اور خطرناک ترین غیر قانونی ہجرت کے راستوں میں سے ایک ہے۔
’قرن افریقہ‘ میں ایتھوپیا کے علاوہ صومالیہ، جبوتی، اریٹیریا اور علاحدگی پسند علاقہ صومالی لینڈ شامل ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی کے سبب پیدا ہونے والی قحط اور خوراک کی کمی بھی وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے لوگ 'قرن افریقہ‘ سے خلیجی عرب ریاستوں یا یورپ کی جانب ہجرت کرتے ہیں۔
ادارت: صلاح الدین زین