وطن لوٹنے والے افغان مہاجرین کو آبادکاری میں عالمی توجہ کی ضرورت

یو این ہفتہ 9 اگست 2025 20:00

وطن لوٹنے والے افغان مہاجرین کو آبادکاری میں عالمی توجہ کی ضرورت

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 09 اگست 2025ء) افغانستان میں ہمسایہ ممالک سے واپس آنے والے لاکھوں لوگوں کو سرحد پر انسانی امداد دی جا رہی ہے لیکن انہیں زندہ رہنے کے لیے عالمی برادری سے بڑے پیمانے پر مزید مدد کی ضرورت ہے۔

پائیدار آبادیوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے 'یو این ہیبیٹٹ' کی افغانستان میں پروگرام مینیجر سٹیفنی لوس نے جنیوا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران اور پاکستان سے واپسی اختیار کرنے والے افغانوں کو معاشرے میں دوبارہ ضم ہونے کے لیے عملی تعاون درکار ہے جو اپنے گھر، اثاثے اور امید کھو چکے ہیں۔

ان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے پاس افغانستان میں رہائش کے لیے کوئی جگہ نہیں کیونکہ وہ کبھی اس ملک میں نہیں رہے۔ واپس آنے والوں میں 60 فیصد کی عمر 18 سال سے کم ہے۔

(جاری ہے)

ان لوگوں کے افغانستان میں کوئی سماجی تعلقات یا رابطے نہیں ہیں جس کی وجہ سے انہیں زندگی دوبارہ شروع کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

افغانستان کو مہاجرین اور پناہ گزینوں کی واپسی کے غیرمعمولی بحران کا سامنا ہے۔

ستمبر 2023 کے بعد پاکستان اور افغانستان میں رہنے والے 30 لاکھ افغان ملک بدر کر دیے گئے یا انہوں نے رضاکارانہ واپسی اختیار کی ہے۔ ان میں 20 لاکھ سے زیادہ لوگ رواں سال ملک میں آ رہے ہیں جن میں بعض لوگوں کے لیے یہ واپسی نہیں بلکہ نیا آغاز ہو گا۔

© UNICEF/Azizullah Karimi

خواتین اور لڑکیوں کے لیے خدشات

افغانستان کو معاشی، موسمیاتی اور انسانی حقوق کے بحرانوں کا سامنا ہے جہاں دو کروڑ 29 لاکھ لوگوں کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔

سٹیفنی لوس نے بتایا کہ طالبان کی جانب سے خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم، نوکریوں اور حقوق پر پابندیوں کے باعث واپس آنے والوں کو سنگین مسائل درپیش ہیں۔ یہ خواتین اور لڑکیاں ایسے ملک میں واپس جا رہی ہیں جہاں 12 سال سے زیادہ عمر کی کوئی لڑکی تعلیم حاصل نہیں کر سکتی۔ ان کے لیے نہ تو کوئی سماجی مواقع ہیں اور نہ ہی وہ معاشی ترقی کر سکتی ہیں۔

واپس آنے والوں میں بہت سے گھرانوں کی کفالت خواتین کے ذمے ہے۔ تاہم افغانستان میں خواتین کو محرم کے بغیر گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں اور طبی مقاصد کے لیے بھی انہیں اپنے مرد سرپرست کی ضرورت رہتی ہے۔

UNDP Afghanistan

موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ

انہوں نے واضح کیا ہے کہ افغانستان میں نازک سیاسی، معاشی اور سماجی صورتحال کے باعث ان لوگوں کی مقامی معاشرے سے جڑت مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔

ملک کا شمار موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثرہ 10 ممالک میں ہوتا ہے۔ خشک سالی، سیلاب اور شدید گرمی کی لہروں کے باعث دیہی گھرانوں کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ ان قدرتی حوادث کے باعث شہروں کی غیررسمی آبادیوں میں رہنے والے لوگوں کو بھی خطرہ ہے جبکہ 80 فیصد شہری آبادی انہی لوگوں پر مشتمل ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ زندگیوں کی بحالی کے لیے انسانی امداد سے بڑھ کر وسائل درکار ہیں۔

لوگوں کو پانی سے لے کر صحت و صفائی کی سہولیات تک بہت سی بنیادی خدمات درکار ہیں۔ انہیں روزگار کے مواقع اور باوقار انداز میں اپنے گھرانوں کی کفالت کے لیے مدد کی ضرورت ہے۔

عالمی برادری سے اپیل

سٹیفنی لوس نے کہا ہے کہ بڑی تعداد میں ملک واپس آنے والے ان لوگوں کو مقامی معاشرے کا حصہ بنانے کے لیے عالمی برادری اور افغان حکام کی جانب سے بڑے پیمانے پر اقدامات درکار ہیں،

یہ افراد کے لیے انسانی بحران ہے لیکن یہ منظم، مقامی سطح پر اختیار کردہ طریقہ ہائے کار اور خدمات، بنیادی ڈھانچے، رہائش اور روزگار کے مواقع کا تقاضا کرتا ہے۔

انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان اور اس کے لوگوں بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کو نظرانداز نہ کرے اور ان کے لیے حسب ضرورت وسائل کی فراہمی یقینی بنائے تاکہ وہ باوقار زندگی گزار سکیں۔