امریکی چاکلیٹ کا انوکھا ذائقہ: باقی دنیا اسے عجیب کیوں سمجھتی ہے؟

DW ڈی ڈبلیو اتوار 10 اگست 2025 17:20

امریکی چاکلیٹ کا انوکھا ذائقہ: باقی دنیا اسے عجیب کیوں سمجھتی ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 اگست 2025ء) کوکوآ سترہویں صدی میں لاطینی امریکہ سے مشروب کی صورت میں شمالی امریکہ کی نوآبادیوں میں پہنچا، لیکن جو گھنی اور میٹھی چاکلیٹ آج مقبول ہے، وہ انیسویں صدی کی دوسری ششماہی میں سوئس چاکلیٹ سازوں کے ذریعے نئی دنیا میں متعارف ہوئی۔

اگرچہ سوئس اور امریکی چاکلیٹ کی جڑیں ایک جیسی ہیں، لیکن ان کے ذائقے خاصے مختلف ہیں۔

امریکہ میں کامیاب ترین برانڈز ایسی چاکلیٹ بناتے ہیں، جس کی شیلف لائف طویل ہو اور جس کا ذائقہ یورپی ذوق کے لیے ابتدا میں کچھ اجنبی محسوس ہوتا ہے۔

یہ فرق جزوی طور پر بیوٹیرک ایسڈ کے استعمال کی وجہ سے ہے، جو امریکی چاکلیٹ میں ہلکی سی تیزابیت پیدا کرتا ہے، جو اکثر یورپی ذائقے کو ناگوار گزرتی ہے۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ زیادہ چینی، کارن سیرپ اور ویجیٹیبل فیٹس جیسے اضافی اجزا بھی امریکی چاکلیٹ کے ذائقے کا حصہ ہوتے ہیں۔

چاکلیٹ کی پیداوار اور اس سے متعلقہ تاریخی امور و حقائق کی جرمن ماہر ژولیا موزر کے مطابق، ''وہاں بھاری، موٹی اور بھری ہوئی چاکلیٹ کی بڑی ٹکیاں بھی خاصی مقبول ہیں۔‘‘

یورپی چاکلیٹ سازوں کے لیے روایتی تراکیب اہم

مغربی یورپ خاص طور پر سوئٹزرلینڈ، بیلجیم، فرانس اورجرمنی میں ذائقے اور معیار کو فوقیت دی جاتی ہے۔

یورپی یونین میں چاکلیٹ کے پیداواری قواعد امریکہ سے سخت ہیں: اس بلاک میں شامل ہر ملک میں تیار ہونے والی چاکلیٹ میں کم از کم 25 فیصد کوکوآ سالڈز ہونا ضروری ہیں اور چاکلیٹ کا اہم جزو کوکوآ بٹر کہلانے والی چکنائی ہونا چاہیے۔

ژولیا موزر کے مطابق، ''یہاں اچھی چاکلیٹ کی قدر بڑھ رہی ہے، اگرچہ دودھ سے بنائی گئی مِلک چاکلیٹ سب سے زیادہ مقبول ہے کیونکہ ہم سب کو بچپن سے یہی پسند ہے۔

‘‘ موزر کے بقول، ''بالغ صارفین میں اب ڈارک چاکلیٹ زیادہ پسند کی جانے لگی ہے۔‘‘

بھارت اور افریقہ میں بڑھتی ہوئی مانگ

بھارت اور ایشیا کے دیگر حصوں میں چاکلیٹ نسبتاً نئی مٹھائی ہے۔ یہاں اس کی صنعتی پیداوار 20 ویں صدی کے وسط میں شروع ہوئی۔ مگر اب یہ مارکیٹ تیزی سے پھیل رہی ہے اور خاص طور پر نوجوانوں میں روایتی مٹھائی کے لیے پسندیدگی کی جگہ لے رہی ہے۔

ژولیا موزر کے مطابق، ''بھارتی چاکلیٹ فی الحال خاص تصور کی جاتی ہےکیونکہ وہاں کی کوکوآ پھلیوں میں بینز کا ذائقہ منفرد اور میوہ دار ہوتا ہے۔‘‘

افریقہ، خاص طور پر مغربی افریقہ، کوکوآ کا سب سے بڑا پیدا کنندہ ہے، مگر 2018 میں وہاں کی چاکلیٹ کی کھپت عالمی مارکیٹ کا صرف چار فیصد تھی۔گرمی کی وجہ سے چاکلیٹ بارز کی پیداوار مشکل ہے، موزر کے بقول، ''لوگ زیادہ تر کوکوآ کے تازہ گودے کا لطف اٹھاتے ہیں یا بھنے ہوئے بینز سے پیسٹ بنا کر چاکلیٹ مشروبات تیار کرتے ہیں۔

‘‘

گھانا جیسے ممالک میں، جو آئیوری کوسٹ کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا کوکوآ پیدا کنندہ ملک ہے، مقامی چاکلیٹ میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ جاپان میں چاکلیٹ کی کِٹ کیٹ برانڈ کی بارز مختلف ذائقوں جیسے ماچا، سویا سوس اور واسابی کے ساتھ برسوں سے بہت مقبول ہیں۔

چاکلیٹ کی پیداوار کا تاریک پہلو

مزیدار چاکلیٹ سے لطف اندوز ہونے کے باوجود اس کی تاریخ کا تاریک پہلو فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔

لاطینی امریکہ سے دنیا بھر تک کوکوآ کے سفر کا تعلق نوآبادیاتی استحصال سے ہے۔ یورپی نوآبادیاتی طاقتوں نے بڑھتی ہوئی یورپی طلب پورا کرنے کے لیے کوکوآ کے پودے اپنے زیر قبضہ گرم مرطوب نوآبادیوں میں متعارف کرائے۔ اس کی کاشت اور فصل کے حصول کا کام اکثر غیر انسانی حالات میں مقامی آبادی سے کرایا جاتا تھا۔

آج بھی بہت سے کوکوآ کسان عالمی مارکیٹ کے طاقتور نظام کے رحم و کرم پر ہیں۔ سخت محنت کے باوجود، کم قیمتوں کی وجہ سے انہیں مناسب معاوضہ نہیں ملتا اور وہ شدید غربت میں زندگی بسر کرتے ہیں۔

شکور رحیم (کاتارینا آبیل)

ادارت: مقبول ملک