اہم کیسوں پر تحقیقات کرنے والے ایف بی آر کے دو سینئر ا فسروں کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کر دیا گیا

مبینہ بے نامی لین دین اور گاڑیوں کی درآمدات میں اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کی جاری تحقیقات کے مستقبل پر تنازع کھڑا ہو گیا ہے.رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 11 اگست 2025 17:12

اہم کیسوں پر تحقیقات کرنے والے ایف بی آر کے دو سینئر ا فسروں کو کراچی ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔11 اگست ۔2025 )فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے دو سینئر اہلکاروں کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کر دیا گیا ہے، جس کے باعث مبینہ بے نامی لین دین اور گاڑیوں کی درآمدات میں اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کی جاری تحقیقات کے مستقبل پر تنازع کھڑا ہو گیا ہے. بزنس ریکاڈر کے مطابق ایف بی آر حکام نے ان تبادلوں کو معمول کی انتظامی کارروائی قرار دیا ہے لیکن اس بار ان تبادلوں نے حساس تحقیقات میں مداخلت کے خدشات کو جنم دیا ہے اس کی ایک وجہ ان میں سے ایک افسر کی جانب سے یہ دعویٰ ہے کہ ان کی تعیناتی طاقتور لابیوں کے خلاف کارروائی کے باعث سزا کے طور پر کی گئی ہے.

(جاری ہے)

عبدالحمید ابڑو، جو کراچی میں کمشنر (آپریشنز) ان لینڈ ریونیو، بے نامی زون تھری کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے کو مبینہ طور پر بے نامی لین دین کے خلاف سخت کارروائی شروع کرنے کے بعد اسلام آباد منتقل کر دیا گیا اپنے تصدیق شدہ سوشل میڈیا اکاﺅنٹ پر عبدالحمید نے لکھا کہ جب انہوں نے گاڑیوں کی درآمدات میں بے نامی لین دین اور بیگج و تحفہ اسکیم کے غلط استعمال کے خلاف کارروائی کی تو طاقتور لابیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.

انہوں نے کہاکہ میری واحد ”غلطی“ یہ تھی کہ میں نے قانون نافذ کیا اور قومی خزانے کا تحفظ کیا جس کے نتیجے میں مجھے کراچی سے اسلام آباد منتقل کر دیا گیا کمشنر نے کہا کہ ان کے اقدامات قومی مفاد میں تھے اور جعلی دستاویزات اور اسکیم کے غلط استعمال کے ذریعے اربوں روپے کے نقصان کو روکنا مقصد تھا. انہوں نے کہا کہ مجھے ہٹایا جا سکتا ہے مگر میں شکست نہیں کھا سکتا میں نے صرف اپنا فرض ادا کیا ہے اور جہاں بھی ہوں، یہ سفر جاری رہے گا.

ان کی قیادت میں بے نامی زون تھری نے گاڑیوں کی درآمدات میں بیگج اینڈ گفٹس اسکیم (وی بی اینڈ جی ایس) کے نظامی غلط استعمال کی وسیع تحقیقات شروع کیں یہ اسکیم اصل میں ذاتی استعمال کے لیے تھی، مگر تجارتی درآمد کنندگان نے کلیئرنگ ایجنٹس اور مبینہ کسٹمز اہلکاروں کی مدد سے اس کا غلط فائدہ اٹھایا تحقیقات فروری 2018 سے مئی 2025 کے درمیان کی گئی گاڑیوں کی کلیئرنس پر مرکوز ہیں جس میں ذاتی بیگج اسکیم کے تحت درجنوں ہزار گاڑیوں کی تفصیلات طلب کی گئی ہیں.

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مشتبہ افراد سے مکمل درآمدی ریکارڈ، کسٹمز دستاویزات، اصل مالکان کی شناخت، معاہدے، بینک بیانات سمیت سات سال کی تفصیلات طلب کی گئی ہیں اسی دوران شیراز احمد جو جنوبی پاکستان میں پوسٹ کلیئرنس آڈٹ (پی سی اے) کے ڈائریکٹر تھے، کو بھی اسلام آباد منتقل کر دیا گیا ہے. شیراز احمد پاکستان کے مشہور فیس لیس کسٹمز اسیسمنٹ (ایف سی اے) نظام کی آڈٹ میں سرگرم تھے ان کی نگرانی میں بنائی گئی رپورٹ میں لگژری گاڑیوں کی قیمتوں کو گھٹانے، غیر قانونی حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے ادائیگیوں کے ثبوت نہ دینے جیسے سنگین نقائص سامنے آئے.

آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ درآمد کنندگان غیر قانونی ذرائع سے رقم بھیجتے ہیں مگر کسٹمز کو کم قیمت ظاہر کرتے ہیں تاکہ محصولات سے بچا جا سکے رپورٹ میں تقریباً 38 ارب روپے کے محصولات کے نقصان کا انکشاف بھی کیا گیا ہے جو ایف سی اے نظام میں تکنیکی نقائص کی وجہ سے ہوا.