بابائے اردو مولوی فضل حق کی برسی ہفتہ کو منائی گئی

ہفتہ 16 اگست 2025 14:31

بابائے اردو مولوی فضل حق کی برسی ہفتہ  کو منائی گئی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 16 اگست2025ء) بابائے اردو مولوی فضل حق کی برسی ہفتہ 16 اگست کو منائی گئی۔ مولوی عبدالحق برِ صغیر پاک ہند کے عظیم اردو مفکر، محقق، ماہر لسانیات، معلم ، انجمن ترقی اردو اور اردو کالج کراچی (موجودہ وفاقی اردو یونیورسٹی برائے فنون، سائنس اور ٹیکنالوجی) کے بانی تھے ۔ انھوں نے اپنی تمام زندگی اردو کے فروغ، ترویج اور اشاعت کے لیے وقف کردی۔

مولوی عبد الحق 20 اپریل 1870ء کو سراواں (ہاپوڑ)اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ان کے بزرگ ہاپوڑ کے ہندو کائستھ تھے جنھوں نے عہدِ مغلیہ میں اسلام کی روشنی سے دلوں کو منور کیا اور ان کے سپرد محکمہ مال کی اہم خدمات رہیں۔ مسلمان ہونے کے بعد ان کے خاندان کو وہ مراعات حاصل رہیں جو مغلیہ دور کی خدمات کی وجہ سے عطا کی گئیں تھیں۔

(جاری ہے)

ان مراعات کو انگریز حکومت نے بھی بحال رکھا۔

مولوی عبد الحق کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی پھر میرٹھ میں پڑھتے رہے۔ 1894ءمیں علی گڑھ کالج سے بی اے کیا جہاں انہیں سرسید احمد خان کی صحبت حاصل ہوئی ، جن کی آزاد خیالی اور روشن دماغی کا مولوی عبد الحق کے مزاج پر گہرا اثر پڑا۔ 1895ء میں حیدرآباد دکن میں سکول میں ملازمت کی اس کے بعد صدر مہتمم تعلیمات ہوکر اورنگ آباد منتقل ہو گئے۔ ملازمت ترک کرکے عثمانیہ کالج اورنگ آباد کے پرنسپل مقرر ہوئے اور 1930ء میں اسی عہدے سے سبکدوش ہوئے۔

جنوری 1902ء میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشن کانفرنس علی گڑھ کے تحت ایک علمی شعبہ قائم کیا گیا جس کانام انجمن ترقی اردو تھا۔ مولانا شبلی نعمانی اس کے سیکرٹری رہے تھے۔ 1905ء میں نواب حبیب الرحمن خان شیروانی اور 1909ء میں عزیز مرزا اس عہدے پر فائز ہوئے۔ عزیز مرزا کے بعد 1912ء میں مولوی عبد الحق سیکرٹری منتخب ہوئے جنھوں نے بہت جلد انجمن ترقی اردو کو ایک فعال ترین علمی ادارہ بنا دیا۔

انجمن کے زیر اہتمام لاکھ سے زائد جدیدعلمی، فنی اور سائنسی اصطلاحات کا اردو ترجمہ کیا گیا۔ نیز اردو کے نادر نسخے تلاش کرکے چھاپے گئے۔ دو سہ ماہی رسائل، اردو اور سائنس جاری کیے گئے۔ ایک عظیم الشان کتب خانہ قائم کیا گیا۔ حیدرآباد دکن کی عثمانیہ یونیورسٹی انجمن ہی کی کوششوں کی مرہون منت ہے، یونیورسٹی میں ذریعہ تعلیم اردو تھا۔ انجمن نے ایک دار الترجمہ بھی قائم کیا جہاں سیکڑوں علمی کتابیں تصنیف و ترجمہ ہوئیں۔

انجمن کے تحت لسانیات، لغت اور جدید علوم پر دو سو سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں۔ تقسیم ہند کے بعد مولوی عبدالحق نے انجم ترقی اردو کے زیر اہتمام کراچی میں پاکستان اردو آرٹس کالج، اردو سائنس کالج، اردو کامرس کالج اور اردو لا کالج جیسے ادارے قائم کیے۔ مولوی عبد الحق انجمن ترقی اردو کے سیکریٹری ہی نہیں مجسّم ترقّی اردو تھے۔ ان کا سونا جاگنا، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، پڑھنا لکھنا، آنا جانا، دوستی، تعلقات، روپیہ پیسہ غرض کہ سب کچھ انجمن کے لیے تھا۔

1935ء میں جامعہ عثمانیہ کے ایک طالب علم محمد یوسف نے انھیں بابائے اردو کا خطاب دیا جس کے بعد یہ خطاب اتنا مقبول ہوا کہ ان کے نام کا جزو بن گیا۔ 23 مارچ 1959ء کو حکومت پاکستان نے مولوی عبدالحق کو صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔ ان کی تصانیف وتالیفات میں نکات الشعرا،دیوانِ تابان،گلشنِ عشق،قطب مشتری،دیوانِ اثر،تذکرہ ریختہ گویاں،مخزن شعرا،ریاض الفصحا،عقدِ ثریا،کہانی رانی کیتکی اور اودھ بھان،تذکرۂ ہندی،چمنستانِ شعرا،ذکرِ میر،مخزنِ نکات،اُردو کی ابتدائی نشو و نما میں صوفیائے کرام کا کام،قواعد اُردو،معراج العاشقین،باغ و بہار،سب رس از ملاّ وجہی،قدیم اُردو،سرسیّد احمد خاں - حالات و افکار،چند ہم عصرنصرتی-حالات اور کلام پر تبصرہ،مرحوم دہلی کالج،پاکٹ انگریزی اُردو ڈکشنری،اسٹوڈنس انگریزی اُردو ڈکشنری،اُردو انگریزی ڈکشنری،سٹنڈرڈ انگلش اُردو ڈکشنری،لغت ِکبیر جلد اول،انتخاب کلامِ میر،دریائے لطافت،گل عجائب،انتخابِ داغ،اُردو صرف و نحو،خطبات گارساں د تاسی،دی پاپولر انگلش اُردو ڈکشنری،افکارِ حالی،پاکستان کی قومی و سرکاری زبان کا مسئلہ،سر آغا خاں کی اُردو نوازی،ناقدین کی رائے اور ڈاکٹر عبادت بریلوی کے مطابق وغیرہ شامل ہیں ۔

بابائے اردو مولوی عبد احق 16 اگست 1961ء کو کراچی میں وفات پا گئے اور وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی کے عبد الحق کیمپس کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں۔ مولوی عبدالحق کی برسی کے موقع پر علمی و ادبی حلقوں کی جانب سے ان کی خدمات کے اعتراف میں بھر پور انداز میں خراج تحسین پیش کیا گیا۔