اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 اگست 2025ء) قدرتی آفات سے نمٹنے والے قومی ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق ملک بھر میں موسلادھار بارشوں کے نتیجے میں 645 ہلاکتیں رپورٹ ہوئی ہیں جبکہ خیبرپختونخوا کی صوبائی ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے مطابق، پختونخوا کے 12 اضلاع سے اب تک 323 ہلاکتیں رپورٹ ہوچکی ہیں۔
پاکستان میں شدید بارشوں، لینڈسلائیڈنگ اور سیلاب کے نتیجے میں ہونے والی تباہی اور ہلاکتوں کے واقعات حالیہ برسوں میں تواتر سے سامنے آ رہے ہیں۔ ان واقعات کو زیادہ تر ''خدا کی طرف سے عذاب‘‘ قرار دیا جاتا ہے، جبکہ سائنسدانوں نے بارہا متنبہ کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب پاکستان میں بارشیں زیادہ اور بے ربط ہوں گی جس کی وجہ سے کلاؤڈ برسٹ کے واقعات میں شدّت اور گلیشیئرز پگھلنے کے واقعات میں تیزی آئے گی۔
(جاری ہے)
ایسے میں ڈی ڈبلیو نے چند ماہرین سے بات کرکے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہپاکستان میں حالیہ تیز بارشوں اور تباہی کی کیا وجہ ہے؟
اس کی وجوہات میں ماہرین سب سے پہلے درختوں کی کٹائی (جس کے نتیجے میں گرمی کی شدت میں زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے)، پھر دریاؤں، ندی نالوں کے راستے میں غیر منصوبہ بند تعمیرات شامل ہیں، جبکہ وہ اس بات کی نشاندہی بھی کرتے ہیں کہ کسی بھی ماحولیاتی ایمرجنسی میں کسی ایک عنصر کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔
بونیر کے رہائشی اور موسمیاتی تبدیلی پر نظر رکھنے والے 24 سالہ وقار عالم کے مطابق پچھلے سات سالوں میں مقامی انتظامیہ نے بونیر ڈسٹرکٹ میں کئی مقامات پر سڑک بنانے کے لیے درخت کاٹے ہیں۔ ’’اس کی وجہ سے گرمی کی شدت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ یہاں سیاحتی مقامات نہیں بنائے گئے ہیں جیسا کہ سوات میں پچھلی دو دہائیوں کے دوران ہوا ہے۔
لیکن ادھر درختوں کی متواتر کٹائی نے موسم کو یک دم بدل کر رکھ دیا ہے جو حالیہ تیز بارشوں اور کلاؤڈ برسٹ کا نتیجہ بھی بنی ہے۔‘‘وقار نے مزید بتایا،''پہلی مرتبہ ہمارے علاقے میں پہاڑ کا اتنا بڑا حصہ گھروں پر گِرا ہے۔ آج چار دن ہوچکے ہیں لوگوں کو ملبے کے نیچے دبے ہوئے لیکن اب تک بڑی گاڑیوں کے ذریعے ملبہ نہیں ہٹایا جا سکا کیونکہ اور امدادی کارکن کے ذریعے ہاتھ سے ملبہ ہٹایا جا رہا ہے۔
‘‘وقار نے بتایا کہ اس وقت صرف بونیر ڈسٹرکٹ کی چاغرزئی تحصیل میں 40 افراد ہلاک جب کہ چار لاشوں کی تلاش اب تک جاری ہے۔
بونیر کے شمال میں سوات آتا ہے جہاں اس سے پہلے بھی کئی بار سیلاب آ چکا ہے۔ ایک طرف اس کی ایک وجہ موسمیاتی تبدیلی بتائی جاتی ہے، مگر ساتھ ہی ماہرین کہتے ہیں کہ یہاں ’’انسانوں کے ہاتھوں ماحول کی تباہی زیادہ کی گئی ہے۔
‘‘سوات یونیورسٹی کے پروفیسر محمد قاسم نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ حالیہ بارشوں کو قدرتی آفت کے بجائے اگر انسانی آفت کہیں تو زیادہ مناسب ہوگا۔ محمد قاسم کے مطابق، ’’یہاں انسانی افعال کا قدرتی ری ایکشن دیکھنے کو مل رہا ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھاکہ ایک طرف بے ربط اور ضرورت سے کہیں زیادہ بارشیں ہو رہی ہیں وہیں کئی مقامات پر پانی کے بہاؤ کا راستہ بند ہے۔
’’یہ مسئلہ صرف پختونخوا کا نہیں بلکہ اس وقت پورے پاکستان کا ہے۔ حکومت یہ کہہ کر دستبردار ہوجاتی ہے کہ انہوں نے پہلے سے اطلاع کر دی تھی۔ لیکن اتنے بڑے ضلع میں کہاں اور کتنی بارش ہوگی اور اس کے نتیجے میں کیا ہوگا یہ توظاہر ہے رہائشیوں کو نہیں پتا۔‘‘محمد قاسم نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جہاں سوات میں کہا جاسکتا ہے اور دیکھا بھی گیا ہے کہ دریا کے ساتھ بہت زیادہ تعمیرات کی گئی ہیں، وہیں بونیر میں تو ایسا کوئی دریا نہیں ہے۔
پھر وہاں کیوں اتنی تباہی دیکھنے کو ملی؟ ’’کیونکہ آپ زرعی زمین پر تجاوزات ہنگامی صورتحال کی تشخیص کے بغیر نہیں کرسکتے۔ لیکن کی جارہی ہے۔ پہلے بونیر میں بمشکل بارش ہوا کرتی تھی اب پچھلے تیس سالوں کا ریکارڈ توڑ چکی ہے۔‘‘واضح رہے کہ عالمی سطح پر پاکستان کی جانب سے کاربن کا اخراج صرف ایک فیصد ہے، لیکن اس کے باوجود پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے سامنے غیر محفوظ ہے۔
اس کی مثال پچھلے تین سالوں کے دوران ضرورت سے زیادہ بارشوں کی صورت میں دیکھی گئی ہے۔محمد قاسم نے کہا کہ اس وقت پاکستان کو موسمیاتی فرنٹ پر درپیش مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ حل یہ ہے کہ ان علاقوں کی نشاندہی کی جائے جہاں غیر ضروری تعمیرات کی جارہی ہیں، دریاؤں کے نزدیک سے تجاوزات ہٹانے کی مہم شروع کی جائے، کس علاقے میں کتنے درخت کہاں لگانے چاہییں اس کی نشاندہی اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے مناسب نظام بنایا جائے تاکہ آپ کا پیغام گاؤں دیہات میں رہنے والوں تک پہنچ سکے۔
اس وقت صرف دس سے پندرہ فیصد لوگوں کو پتا چلا ہوگا کہ ان کا علاقہ خطرناک علاقوں کی فہرست میں ہے، لیکن اس سے نمٹنے کے لیے کیا کرنا چاہیے یہ انہیں نہیں پتا نہ بتایا جاتا ہے۔’’یہ مسئلہ پختونخوا کے علاوہ پورے ملک کا ہے۔ ڈی ایچ اے میں سیلاب میں کئی گھروں کا ڈوب جانا اور ایک باپ بیٹی کا گاڑی میں بہہ جانے کا واقعہ ہم سب کے سامنے ہے۔‘‘