میاں عبدالقیوم کے خلاف کالے قانون کے تحت درج مقدمے میں الزامات عائد

منگل 19 اگست 2025 13:52

سرینگر (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 19 اگست2025ء) غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں قابض حکام نے ایڈووکیٹ بابر قادری کے قتل سے متعلق سیاسی بنیادوں پر قائم کئے گئے مقدمے میں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر میاں عبدالقیوم کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون یو اے پی اے کے تحت الزامات عائد کیے ہیں۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق 77سالہ میاں عبدالقیوم اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے زبردست حامی ہیں۔ ریاستی تحقیقاتی ادارے ایس آئی اے نے انہیںتنازعہ کشمیر پر انکے اصولی موقف پر انتقامی کارروائی کرتے ہوئے ایک جھوٹے مقدمے میںملوث کر کے گزشتہ سال جون میں گرفتار کیا تھا ۔ایس آئی اے کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں 2008کے عوامی انتفادہ کے دوران انہوں نے بھارت مخالف مظاہروں کی قیادت کی تھی اور انہوں نے ہڑتال کی کال دی جوکہ کل جماعتی حریت کانفرنس کی طرف سے جاری کردہ کلینڈروں کابھی حصہ تھی۔

(جاری ہے)

ایس آئی اے کے مطابق میاں عبدالقیوم بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی کے بھی بہت قریب تھے۔ ایس آئی اے کی چارج شیٹ میں مزیدکہا گیا ہے کہ انہوں نے ہائی کورٹ میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران اعلان کیا تھا کہ وہ نہ تو خود کو بھارت کا شہری سمجھتے ہیں اور نہ ہی وہ بھارتی آئین پر یقین رکھتے ہیں۔ستمبر 2020میں ایڈووکیٹ بابرقادری کے قتل کے مقدمے میں بدنام زمانہ بھارتی تحقیقاتی ادارے این آئی اے کی ایک عدالت نے میاں عبدالقیوم کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون کی متعدد فعات کے تحت باضابطہ طورپر الزامات عائد کئے تھے ۔

قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کاکہنا ہے کہ یہ الزامات مقبوضہ علاقے میں آزادی پسند آوازوں کو خاموش کرنے کی ایک بڑی مہم کا حصہ ہیں۔ انہوں نے واضح کیاکہ بھارت کی تاریخ رہی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق تنازعہ کشمیر کے حل کا مطالبہ کرنے والے کشمیری سیاسی رہنمائوں، وکلا، صحافیوں اور کارکنوں کوڈرانے اور دھمکانے کے لیے جھوٹے اور من گھڑت مقدمات اورکالے قوانین کا استعمال کرتا۔