Live Updates

قومی سلامتی دراصل عوامی صحت، تعلیم، سماجی یکجہتی اور معاشی شمولیت سے متعین ہوتی ہے ، رانا احسان افضل اور مقررین کاکتاب ’’اکانومی: قومی سلامتی کی ریڑھ کی ہڈی‘‘ کی تقریبِ رونمائی سے خطاب

منگل 19 اگست 2025 20:55

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 19 اگست2025ء) پاکستان اور بیرونِ ملک کے 14 مصنفین کے 17 ابواب پر مشتمل کتاب ’’اکانومی: قومی سلامتی کی ریڑھ کی ہڈی‘‘ کی تقریبِ رونمائی اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ (آئی پی آر آئی) میں منعقد ہوئی۔تقریب میں معیشت، بنکاری، سائبر سکیورٹی، سفارت کاری، توانائی، ٹیکنالوجی اور پالیسی کے ماہرین نے شرکت کی۔

اس موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آئی پی آر آئی کے صدر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ماجد احسان نے کہا کہ معیشت پاکستان کی سلامتی اور ترقی کا سب سے اہم ستون ہے، آج کا دور محض عسکری طاقت پر انحصار کا متحمل نہیں ہو سکتا، قومی سلامتی کا مفہوم بدل چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ معیشت ہماری دفاعی، سفارتی اور داخلی پالیسیوں کی بنیاد ہے اورپائیدار استحکام صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہم ادارہ جاتی اصلاحات، مالیاتی نظم و ضبط اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائیں گے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ آئی پی آر آئی کو اس بات پر فخر ہے کہ اس نے ایک ایسی کتاب کی اشاعت ممکن بنائی جو پاکستان کے لیے نئی سمت تجویز کرتی ہے اور ہمیں فائر فائٹنگ کے کلچر سے نکال کر ریزیلینس کی طرف لے جاتی ہے۔کتاب کے مدیراعلیٰ ڈاکٹر انیل سلمان نے اپنے خطاب میں کہا کہ 2025 کی استحکام نے ہمیں سانس لینے کی مہلت دی ہے،یہ منزل نہیں، ایک کھڑکی ہے، فائر فائٹنگ کا وقت گزر چکا،اب ریزیلینس کی تعمیر ضروری ہے۔

ڈاکٹر انیل سلمان نے واضح کیا کہ ریزیلئنس صرف اعداد و شمار کا نام نہیں بلکہ کاشتکار کی بے خوفی، چھوٹے کاروبار کی نمو، نوجوانوں کی جدّت اور خواتین کی قیادت اس کا حصہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل کی جنگیں ٹینکس سے نہیں بلکہ ٹیرف، پابندیوں اور الگورتھیمز سے لڑیں جائیں گی اور موسمیاتی آفات ہر بار ہماری معاشی نقشہ بندی کو متاثر کرتی ہیں ، کتاب یہ دکھاتی ہے کہ مصنوعی ذہانت، بائیو ٹیک، گرین انرجی اور ڈیجیٹل تجارت کے ذریعہ پاکستان کمزوری کو قیادت میں بدل سکتا ہے۔

انہوں نے سی پیک، گوادر اور علاقائی تجارت کو خود مختاری کے اہم ستون قرار دیتے ہوئے زور دیا کہ ریزیلئنس صرف اشرافیہ نہیں بلکہ ہر شہری کی ملکیت ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر سلمان نے شریک مدیران اورمصنفین کی ٹیم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب صرف متن نہیں بلکہ ایک عہد ہے۔ انہوں نے اپنی ٹیم ممبرزمنیب، باسط اور شیراز، ڈیزائنر صالحہ اور ویڈیوگرافر سعد کی خدمات کو بھی سراہا۔

’’سائبر سکیورٹی: معیشت کی محافظ دیوار‘‘ کے مصنف صدّیق ہمایوں نے اپنے باب’’سائبر اینڈ اکنامک سکیورٹی : ڈیجیٹل نیکسز آف ولنرایبلٹی‘‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کی ڈیجیٹل تبدیلی بے مثال مواقع کے ساتھ بڑے خطرات بھی لائی ہے۔ انہوں نےسی آئی اے ٹرائڈ-کانفیڈینشیئلٹی، انٹیگریٹی اور اویلیبیلٹی کی اہمیت واضح کی اور تکنیکی ، ادارہ جاتی خلا اور انسانی عناصر کو تین بنیادی کمزوریاں قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ قومی سائبر پالیسی (2021) کے تحت تین سطحی سی ای آر ٹی نظام 2024 میں فعال ہوا، کلاؤڈ برسٹ پالیسی (2022) درست سمت میں قدم ہےمگر متحدہ قانونی فریم ورک، مہارتوں میں سرمایہ کاری، باقاعدہ پن ٹیسٹنگ اور عوامی آگہی بھی ناگزیر ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ کوانٹم کمپیوٹنگ اور مصنوعی ذہانت روایتی رمزنگاری کو چیلنج کر سکتے ہیں اس لیے پوسٹ-کوانٹم سکیورٹی کی پیش بندی وقت کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر خرم نے ’’قومی شناخت اور بیانیہ: معیشت کے پیچھے انسان‘‘کے فلسفیانہ زاویہ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ معیشت انسان کے بغیر بے معنی ہے،ریاستی شناخت اور سماجی اعتماد کے بغیر خوشحالی کمزور رہتی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ نئی نسل کے لیے ڈاکٹر علامہ اقبال جیسے جامع اور متحرک ہیروز کو قومی بیانیے کا حصہ بنایا جائےتاکہ وحدت، خودی اور جدّت معاشی پالیسیوں کی روح بنیں۔

تقریب کے دوران ’’کرپٹو کرنسی: ایکو سسٹم، شریعہ مشاہدات اور ضابطہ کاری‘‘کے باب میں مرتضیٰ عباس نے کرپٹو سے متعلق کہا کہ کامیابی کا انحصار ایکسچینجز، کَسٹڈی، اینالیٹکس اور مستند معلومات پر مشتمل ایکو سسٹم پر ہے، کرپٹو کی فریکشنل شرکت مالی شمولیت بڑھاتی ہے اور مارکیٹ کی لیکویڈیٹی بلند کرتی ہے مگر قیمت کا تعین، اتار چڑھاؤ اور آگاہی کی کمی بڑے چیلنجزہیں۔

انہوں نے تجویز دی کہ ریگولیٹری سینڈ باکس میں کنٹرولڈ ٹیسٹنگ کی جائے،رول بیسڈ کے بجائے پرنسپل بیسڈ ریگولیشن اپنائی جائے،شرعی اصولوں کو سامنے رکھ کر قابلِ عمل ماڈلز مرتب کئے جائیں اور ابتدا میں وینچر کیپیٹل کے ذریعے ذمہ درانہ جدّت کی راہ ہموار کی جائے۔’’بنکاری شعبہ: کامیابیاں اور کمزوریاں-حقیقت پسندانہ جائزہ‘‘ کے باب کے بارے میں سیّد صائم علی نے بتایا کہ نجکاری کے بعد پاکستانی بنک منافع بخش، اچھی طرح کیپیٹلائزڈ اور لیکوئیڈ ہیں،نابکار قرضوں کا تناسب 6فیصد تک ہے اور منافع پر انکم ٹیکس کی شرح 54 فیصد تک بڑھی ہےتاہم کم ڈپازٹ ٹو جی ڈی پی ، نجی شعبے کو کم قرض کی فراہمی، 2008 کے بعد نئی سرمایہ کاری کی کمی اور بہت بڑا غیر رسمی شعبہ سنجیدہ رکاوٹیں ہیں۔

اس موقع پر خطاب کے دوران وزیر اعظم کے کوآرڈینیٹر رانا احسان افضل نے ’’پالیسی سمت: بوم-بسٹ سے پائیدار ترقی تک‘‘کے حوالے سے کہا کہ حالیہ استحکام مہنگائی میں کمی، شرح سود میں نرمی اور ذخائر میں بہتری سے ظاہر ہوتی ہےمگر اصل امتحان4 تا 6فیصد پائیدار ترقی کا ہدف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیرف لبرلائزیشن کے تحت RDs اور ACDs چار برس میں ختم اور کسٹمز ڈیوٹی کی زیادہ سے زیادہ شرح 15فیصد کی جانب پیش قدمی کی جا رہی ہے،درآمدی متبادل کے بجائے ویلیو ایڈڈ ایکسپورٹس کی حوصلہ افزائی ہوگی،ایف بی آر اصلاحات، ڈیجیٹائزیشن، ٹیکس بیس کی توسیع، نان فائلرز کا خاتمہ اور مضبوط مقامی حکومتوں کے بغیر ترقی کے ثمرات نیچے تک نہیں پہنچیں گے۔

انہوں نے واضح کیا کہ قومی سلامتی دراصل عوامی صحت، تعلیم، سماجی یکجہتی اور معاشی شمولیت سے متعین ہوتی ہے اوردفاع بھی اسی وقت پائیدار ہے جب معیشت اسے سہارا دے۔
Live مہنگائی کا طوفان سے متعلق تازہ ترین معلومات