آئی ایم ایف کا دباﺅ پراین ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ کم کرنے کی تیاری شروع

جوملک بھی عالمی مالیاتی ادارے کے پروگرام میں گیا اسے اقتصادی تباہی کا سامنا کرنا پڑا‘ عالمی مالیاتی اداروں کے معاشی شکنجے سے نکلے بغیر پاکستان کے معاشی حالات ٹھیک نہیں ہوسکتے. ماہرین کا انتباہ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 22 اگست 2025 15:51

آئی ایم ایف کا دباﺅ پراین ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ کم کرنے کی ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 اگست ۔2025 )عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) کے دباﺅ پر وفاقی حکومت نے اخراجات میں واضح کمی کے پلان پر کام شروع کر دیا ہے صوبوں کا این ایف سی ایوارڈ میں حصہ کم کرنے کی تجویز ہے مجوزہ پلان پر صوبوں کے اعتراضات، سندھ نے تجویز کو مسترد کردیا. ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت نے اخراجات میں واضح کمی کے پلان پر ابتدائی کام شروع کر دیا، نئے این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ کارکردگی سے مشروط کرنے کی تجویز ہے منصوبے کے تحت گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کےلئے بھی واضح فنڈ مختص کرنے کی تجویز ہے.

(جاری ہے)

وزارت خزانہ کے مطابق وفاق کو گزشتہ مالی سال 7 ہزار 444 ارب روپے مالی خسارے کا سامنا کرنا پڑا جبکہ رواں مالی سال مالی خسارے کا تخمینہ 6 ہزار 501 ارب روپے ہے منصوبے کا مقصد قرضوں کی ادائیگی اور بجٹ خسارے میں کمی لانا ہے، قرضوں پر سود، سماجی تحفظ، دفاع، ترقیاتی اخراجات، سبسڈیز وفاق کے بڑے خرچے ہیں، صرف قرضوں پر سود کی مد میں رواں مالی سال 8 ہزار 207 ارب خرچ ہوں گے.

ذرائع کے مطابق این ایف سی میں صوبوں کو دیئے گئے 57.5 فیصد حصے پر نظرثانی ضروری ہے، تعلیم، صحت، ماحولیات کے شعبوں میں بہتر کارکردگی سے صوبوں کو فنڈز ملنے کا امکان ہے دیامر بھاشا سمیت بڑے ڈیمز کےلئے بھی این ایف سی سے حصہ نکالنے کی تجویز ہے، این ایف سی میں آبادی کے فارمولے کا وزن 82 فیصد سے کم کرنے کی تجویز ہے وفاقی حکومت کے پاس زیادہ وسائل دستیاب ہونے سے آئی ایم ایف کی شرائط پوری ہونگی.

دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے آئی ایم ایف کے قیام سے لے کرآج تک جو بھی ملک عالمی مالیاتی ادارے کے پروگرام میں گیا اسے اقتصادی لحاظ سے تباہی کا سامنا کرنا پڑا‘انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف‘ورلڈ بنک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے معاشی شکنجے سے نکلے بغیر پاکستان کے معاشی حالات ٹھیک نہیں ہوسکتے. ماہرین کا کہنا ہے چند بڑی طاقتوں کے سوا ساﺅتھ امریکی ممالک‘افریقی ممالک‘سری لنکا‘ سمیت فارایسٹ ایشیاءکے ممالک سمیت دنیا میں بہت سارے ممالک کی معاشیات کا مطالعہ بطور ماڈل کیا جاتا ہے جن کی خودمختاری‘سلامتی اور شہریوں کا معیارزندگی عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں اور ان پر بھاری سود کی وجہ سے متاثرہوا ‘انہوں نے کہاکہ ترقی پذیرممالک میں کرپٹ حکومتیں آئی ایم ایف جیسے اداروں کے لیے انتہائی مفید ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ساﺅتھ امریکی ممالک اور افریقہ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں ان مالیاتی اداروں نے ایسی حکومتیں تک ختم کروائیں جنہیں یہ اپنے ایجنڈے کے مخالف سمجھتے ہیں .

انہوں نے کہاکہ اس موضوع پر دنیا میں ماہرین کے تحقیقی مقالے اور کتابیں موجود ہیں جن میں دلائل اور ثبوتوں کے ساتھ اس تھیوری کو ثابت کیا گیا ہے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک جیسے اداروں نے دنیا میں معاشی بدحالی اور دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم میں مرکزی کردارادا کیا ہے‘انہوں نے کہا کہ حالیہ سالوں میں زمباوے کی مثال موجود ہے جہاں ملک کوآئی ایم ایف کی پالیسیوں کے تحت چلانے کے نتیجے میں معیشت مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہے ‘ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تین سالوں کے دوران روپے کی قدرمیں 200فیصد تک کی کمی‘بجلی‘گیس اورتیل کی قیمتوں ‘عام استعمال کی اشیاءاور خوراک کی قیمتوں میں ناقابل برداشت حد تک اضافہ ہوچکا ہے .

انہوں نے کہاکہ ملکی پیدوار میں مسلسل کمی ہورہی ہے اور درآمدات پر انحصار بڑھا ہے جس سے حکمران اشرافیہ کوفائدہ ہورہا ہے جبکہ پاکستان کے شہریوں کو اس کی قیمت کئی نسلوں تک چکانی پڑے گی‘ماہرین کا کہنا ہے کہ معاشی خودمختاری قومی سلامتی‘خودمختاری اور قوموں کی ترقی میں سب سے اہم کردار اداکرتی ہے اور معاشی خودمختاری پر کمپرومائزخودمختاری ‘سلامتی سمیت ہر چیزپر کمپرومائزہوتا ہے.

انہوں نے کہاکہ پاکستان کوفوری طور پر ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جس سے ملک معاشی خودمختاری کا تحفظ کیا جاسکے اور قرضوں اور سود کے نہ ختم ہونے والے جال سے آزادی حاصل کی جاسکے اس کے بغیرملک اور قوم کی حقیقی ترقی اور خودمختاری ممکن نہیں‘انہوں نے کہاکہ پاکستان نے کرنسی ‘مرکزی بینک اور معاشیات پر کنٹرول کو ختم کرکے معاشی تباہی کو رضاکارانہ طور پر قبول کیا جس کے بعد عالمی مالیاتی اداروں کے دباﺅ پر خوراک سمیت ہر چیز کی قیمتوں کو عالمی منڈیوں کے ریٹ کے مطابق بڑھانا پڑا جس سے ملک میں غربت کی شرح میں خطرناک اضافہ ہوا‘اب عالمی مالیاتی اداروں کے دباﺅ پر صوبوں کا حصہ کم کیا جارہا ہے جس سے صوبوں اور مرکزکے درمیان تناﺅ میں اضافہ ہوگا جو ملکی سلامتی کے لیے انتہائی خطرناک ہے‘این ایف سی ایوارڈمیں حصہ کم ہونے سے صوبوں کو عوامی فلاح کے منصوبوں کو ختم کرنا پڑے گا‘اسی منصوبے کے تحت سرکاری ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے جس سے عام ورکنگ کلاس شہریوں کے لیے موجود سیفٹی نیٹ کا خاتمہ ہوجائے گا.