ہائبرڈ نظام کا مطلب آمریت ہے، آگے بڑھنے کیلئے آئین پرعمل کرنا ہوگا، جسٹس اطہرمن اللہ

1971 میں آزادی رائے پرپابندی نہ ہوتی تو ملک دولخت نہ ہوتا ، سپریم کورٹ کا جج کا خطاب

جمعرات 4 ستمبر 2025 17:00

ہائبرڈ نظام کا مطلب آمریت ہے، آگے بڑھنے کیلئے آئین پرعمل کرنا ہوگا، ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 ستمبر2025ء)سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ 1971 میں آزادی رائے پرپابندی نہ ہوتی تو ملک دولخت نہ ہوتا ،ملک میں بنیادی حقوق بے معنی ہوچکے ہیں اور ہائبرڈ نظام کا مطلب آمریت ہے، آگے بڑھنے کے لیے آئین پرعمل کرنا ہوگا۔سٹی کورٹ میں کراچی بار ایسوسی ایشن کی جانب سے عدلیہ کی آزادی، آئینی حکومت اور انصاف تک رسائی کے موضوع سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔

سیمینار میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے جب کہ مہمانوں میں سابق صدر سپریم کورٹ بار منیر اے ملک بھی شامل تھے۔جسٹس اطہر من اللہ نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ جب مجھے دعوت دی گئی تو میں انکار نہیں کرسکا کیوں جب کوئی نوجوان مجھے کچھ کہے تو انکار نہیں کرسکتا ہوں، آج اگر کسی کو باہر ہلکا بھی شک ہے آئین کی بالادستی کا تو کراچی بار آکر ان نوجوانوں کو دیکھیں۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہاکہ ہمارا 77 سال کا نظام ایسا بن گیا ہے کہ 5 ججوں کا نام لوگ لیتی ہوئے گھبراتے ہیں، جنہوں نے مولوی تمیز الدین کیس کا فیصلہ دیا ہے جن میں جسٹس بچل، جسٹس ویلانی، جسٹس کونسٹنائن ،جسٹس بخش شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب پی سی سی او آیا تو سپریم کورٹ کے 5 ججز نے حلف لینے سے انکار کردیا، ان 6 ججوں میں سے 5 کا تعلق سندھ سے تھا، ان میں کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے آئندہ کا چیف جسٹس بننا تھا، مگر انہوں نے اپنے حلف کو سامنے رکھتے ہوئے اصولی فیصلہ کیا۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ 77 سال کی عدلیہ کی تاریخ میرے لیے قابل فخر نہیں ہے، میرے لیڈر منیر اے ملک اور وہ تمام لیڈران ہیں جنہوں نے وکلا تحریک کو لیڈ کیا، ہم بھول جاتے ہیں کہ وکلا تحریک میں 90 لوگوں نے اپنی جانیں دیں، ہم انکا بھی قرض نہیں اتار سکتے ہیں، وہ آئین اور قانون کی بالادستی چاہتے تھے۔انہوں نے کہا کہ یہاں 77 سالوں میں آئینی گورننس نہیں ہے، میں کئی فیصلوں میں ہائی کورٹ میں لکھا کہ قانون کی بالادستی نہیں ہے، ہمیں تسلیم کرنے سے کبھی گھبرانا نہیں چاہیے۔

انہوںنے کہاکہ بحیثیت جج میں جو حلف اٹھایا ہے اس کے الفاظ ہم ہر صبح پڑھیں تو کوئی وعدہ لینے کی ضرورت نہیں، اللہ کو حاضر ناظر جان کر ایک حلف اٹھایا کہ ہم نے آئین کا دفاع کرنا ہے اور یہ کوئی احسان نہیں بلکہ ہمارے حلف کا حصہ ہے۔سپریم کورٹ کے جج نے کہا کہ جس معاشرے میں سچائی ختم ہو جائے وہ معاشرے ختم ہو جاتے ہیں، پاکستان توڑنے کی بنیاد پاکستان بننے وقت رکھ دی گئی تھی، میں یہ کہونگا ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔

انہوںنے کہاکہ آئین کی ساری بنیاد یہ ہے، جوحق حکمرانی صرف اصل اس کی ہے جو عوامی منتخب نمائندے ہوں، لیکن اس کی شرط ایک اور ہے کہ کوئی بھی ادارہ یا حکومتی ادارہ پولیٹیکل انجینئرنگ نہیں کرے گا۔انہوںنے کہا کہ جو بھی عوامی ادارے منتخب ہوں گے وہ حقیقی اور صاف شفاف انتخابات سے الیکٹ ہوں، بدقسمتی سے 77سال سے یہ بھی ہمارا خواب رہا ہے، ہم سب ٹھیک ہے دیکھا کر خود کو اور اللہ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ منیر اے ملک نے کہا ہائبریٹ نظام ہے، اس کا مطلب آمریت ہے، آئینی گورنسس نہیں، آگے بڑھنے کیلیے آئین پر عمل کرنا ہوگا۔