ؔسپریم کورٹ کادھواں دار انتظامی سائیڈ پر فل کورٹ اجلاس آج پیر کوہوگاصدارت چیف جسٹس یحیٰ آفریدی کریں گے

اتوار 7 ستمبر 2025 18:00

ت*اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 07 ستمبر2025ء)سپریم کورٹ کادھواں دار انتظامی سائیڈ پر فل کورٹ اجلاس آج پیر کوہوگاصدارت چیف جسٹس یحیٰ آفریدی کریں گے جسٹس منصورعلی شاہ کے خط بھجوائے جانے کے بعدیہ اجلاس اور بھی اہمیت اختیارکرگیاہے ججزنے بھی تجاویزتیارکرلیں جسٹس منصورعلی شاہ اس حوالے سے تجاویزپیش کرسکتے ہیں۔نئے عدالتی سال کی تقریب بھی منعقدہوگی جبکہ عوام الناس کے لیے سہولت مرکزکابھی افتتاح کے ساتھ ساتھ میڈیاسٹیشن کابھی افتتاح کیاجائیگا۔

چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت فل کورٹ اجلاس دن ایک بجے ہوگا، اجلاس صرف ایک نکاتی ایجنڈا پر مشتمل ہوگا،اجلاس میں سپریم کورٹ رولز 2025 میں ترامیم کا جائزہ لیا جائے گا، صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے تحریری تجاویز سپریم کورٹ کوبھجوائی ہیں۔

(جاری ہے)

تجاویز میں عدالتی فیسوں میں اضافے کی واپسی کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔تاحال کسی جج نے رولز میں ترامیم کیلئے تجاویز جمع نہیں کروائیں، سپریم کورٹ رولز 2025 سرکولیشن کے زریعے منظور کرائے گئے تھے، اکثریت سے سپریم کورٹ رولز 2025 منظور کیے گئے تھے، اختلاف کرنے والے ججز کی رائے تھی فل کورٹ اجلاس سے رولز کی منظوری کرائی جائے،اختلاف کرنے والے ججز نے 15 دن گزرنے کے باوجود کوئی تجاویز نہیں دیں،سپریم کورٹ بار کی تجاویز پر فل کورٹ میں غور ہوگا،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر میاں رؤف عطا اور سینئر وکیل سپریم کورٹ حافظ احسان کھوکھر نے تحریری تجاویز سپریم کورٹ میں بھجوادیں12صفحات پر مشتمل تجاویز میں عدالتی فیسوں میں اضافے کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا ہے،تجاویزمیں مزیدکہاگیاہے کہ عدالتی فیسوں میں اضافہ سستے اور فوری انصاف کی آئینی شق 37ڈی کے منافی ہے،ناروے اور جرمنی میں بہت معمولی عدالتی فیس لی جاتی ہے،انصاف کی رسائی مالی طور پر مضبوط افراد کے بجائے تمام شہریوں تک ہونی چاہیے،برطانیہ،بھارت میں فوری شنوائی والے مقدمات کیلئے شام تک عدالتی لگتی ہیں،سپریم کورٹ میں دائر ہونے والی ہر اپیل پر ایک سال میں جبکہ سول اپیل کا فیصلہ چھ ماہ میں کیا جائے،سپریم کورٹ میں جب کیس فکس ہوجائے کاز لسٹ سے اٴْس وقت تک نہ ہٹایا جائے جب تک غیر معمولی صورتحال یا ایمرجنسی نہ ہو،جب ایک مقدمہ سپریم کورٹ کی کاز لسٹ سے ڈی لسٹ ہو تو لازماخودکار طور پر اگلے ورکنگ ڈے میں دوبارہ فکس کیا جائے،مقدمے کی عدالتی کارروائی کا شارٹ آرڈر اٴْسی دن جاری ہونا چاہیے جبکہ تفصیلی فیصلہ ایک ماہ میں جاری ہوجانا چاہیے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اپیلوں کو دو ماہ میں فکس کیا جائے،سپریم کورٹ میں دائر ہونے والے ہر مقدمے کا ایک سال میں فیصلہ کیا جائے،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ججز کیخلاف احتساب کے ادارے سپریم جوڈیشل کونسل کی اوپن پروسیڈنگ کی تجویز دی ہے،سپریم جوڈیشل کونسل میں کسی جج کیخلاف بھیجی گئی شکایت پر چھ ماہ میں فیصلہ ہونا چاہیے،سپریم کورٹ میں مقدمات کی سماعت کیلئے شا م کو بھی عدالتی بنچز تشکیل دیئے جائیں۔

انتظامی فل کورٹ سے قبل سپریم کورٹ میں نئے عدالتی سال کی تقریب کا اہتمام ہوگا۔نئے عدالتی سال پر سپریم کورٹ میں قائم کیے گئے سہولت مرکز کا افتتاح بھی کیا جائے گا۔جسٹس منصورعلی شاہ کے خط کے بعداجلاس میں غیر معمولی صورت حال پیداہوسکتی ہے۔جسٹس منصور نے چیف جسٹس کو خط لکھاہے اور مطالبہ کیاہے کہ چیف جسٹس پاکستان جوڈیشل کانفرنس میں عوامی سطح پرسوالات کے جواب دیں۔

جسٹس منصور کے خطوط نہ رک سکے ایک کے بعد ایک خط منظرعام پر آرہا ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے بعد اب سپریم کورٹ میں فل۔کورٹ اجلاس سے پہلے جسٹس منصور علی شاہ کاخط سامنے آگیاہے جس میں سوالات اٹھائے گئے ہیں۔پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس کیوں نہیں بلایا گیا سپریم کورٹ رولزکی منظوری فل کورٹ کے بجائے سرکولیشن کے ذریعے کیوں کی گئی خط کے متن کے مطابق موسٹ سینیئرجج ہونے کے ناطے ادارے کی ڈیوٹی کیلئے خط لکھ رہا ہوں، متعدد خطوط لکھے، آپ کا نہ تحریری نہ زبانی جواب ملا۔

خط میں کہا گیا ہے کہ 8 ستمبر کو جوڈیشل کانفرنس میں عوامی سطح پرسوالات کے جواب دیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس کیوں نہیں بلایا گیا سپریم کورٹ رولزکی منظوری فل کورٹ کے بجائے سرکولیشن کے ذریعے کیوں کی گئی اختلافی نوٹ جاری کرنے سے متعلق پالیسی میں تبدیلی کیلئے انفرادی طورپرمشاورت کیوں کی گئی جسٹس منصورعلی شاہ نے خط میں سوال کیاکہ ججزکی چھٹیوں پر جنرل آرڈر کیوں جاری کیا گیا 26 ویں ترمیم کیخلاف درخواستوں پر اوریجنل فل کورٹ کیوں تشکیل نہیں دیا گیا خط کے متن کے مطابق ججزکوخودمختاری کے بجائے آپ انہیں کنٹرولڈ فورس کے طورپرپروان چڑھا رہے ہیں، امید ہے نئے عدالتی سال کے آغازکی تقریب میں ان سوالات کا جواب دیا جائی