غزہ کی تباہی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا ثبوت، ٹام فلیچر

یو این پیر 8 ستمبر 2025 19:00

غزہ کی تباہی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا ثبوت، ٹام فلیچر

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 08 ستمبر 2025ء) انسانی امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل ٹام فلیچر نے کہا ہے کہ غزہ کی بربادی، فلسطینی شہریوں کی مسلسل ہلاکتیں، بھوک اور بیدخلی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور عالمی برادری کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے۔

اتوار کو جاری کردہ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ شہر کے مکینوں کے لیے انخلاء کا تازہ حکم اس وقت دیا گیا ہے جب دو ہفتے قبل علاقے میں قحط کی باقاعدہ تصدیق ہو چکی ہے اور یہ سب ایک بڑی عسکری کارروائی کے دوران ہو رہا ہے۔

Tweet URL

ٹام فلیچر نے خبردار کیا کہ غزہ شہر کے قحط کو دیر البلح اور خان یونس تک پھیلنے سے روکنے کے لیے بہت کم وقت رہ گیا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے امید ظاہر کی کہ مزید ہولناکیاں روکنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔

امددای أمور کے رابطہ کار نے غزہ میں انسانی امداد کی بلا رکاوٹ فراہمی، شہریوں کے تحفظ، عالمی عدالت انصاف کے عبوری اقدامات پر عملدرآمد، اسرائیلی یرغمالیوں اور ناجائز طور پر گرفتار فلسطینیوں کی رہائی اور فوری جنگ بندی کا اپنا مطالبہ دہرایا۔

نقل مکانی کے مسائل

غزہ شہر میں کئی شہریوں نے یو این نیوز کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے انخلاء کے اسرائیلی حکم پر اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ آیا وہ قیام کریں یا نقل مکانی کر جائیں۔

اسی ادھیڑپن کے شکار ابو عامر الشریف نے اپنے اور اپنے خاندان کی حالت بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ غزہ شہر میں اپنے تباہ شدہ گھر کے سامنے بیٹھے ہیں جہاں اسرائیلی کارروائیاں شہر اور شمالی علاقوں میں جاری ہیں۔

ابو عامر اور ان کا خاندان غزہ کے شیخ رضوان محلے میں اپنے تباہ حال گھر کے باہر اپنے بچے کچھے سامان کے ساتھ ایک بار پھر نقل مکانی کی تیاری میں لگے ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ نقل مکانی کا مطلب نقل و حمل کے اخراجات اور نئی رہائش کے کرائے کی شکل میں اضافی مالی بوجھ ہے۔ انہوں نے نامہ نگار کو بتایا کہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے تنخواہیں نہیں مل رہیں اور لوگ بے روزگار ہیں جبکہ نقل مکانی کرنے والوں سے نئی جگہوں پر ہزاروں ڈالر مانگے جاتے ہیں۔

UN News
ابو عامر الشریف اپنے تباہ حال گھر کے باہر بیٹھے ہیں۔

ملبے پر رہائش

اسی محلے میں اپنے تباہ شدہ گھر کے ملبے کے درمیان حسام ماضی کھڑے ملے جو فرنیچر کو توڑ کر اس کی لکڑی کو بطور ایندھن بیچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ حسام کا کہنا تھا کہ ان کے پاس جنوبی غزہ کی طرف نقل مکانی کے لیے درکار وسائل نہیں ہیں، اور ان کی کوشش اب صرف اتنی ہے کہ وہ اپنی بیوی بچوں کے ساتھ نقل مکانی کے لیے کچھ رقم جمع کر سکیں۔

انہوں نے اپنی حالت بیان کرتے ہوئے کہا وہ اپنے فرنیچر کو توڑ کر لکڑی بیچتے ہیں تاکہ اس سے ملنے والے پیسوں سے ناشتہ یا دوپہر کے کھانے کے لیے ایک کلو آٹا خرید سکیں۔ اپنے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’ہمارے گھر کو دیکھیں، اور دیکھیں کہ اس کے ساتھ کیا ہوا، ہم ملبے پر رہتے ہیں اور اب اپنا سامان لے کر مغربی غزہ جانا پڑ رہا ہے۔

UN News
حسام ماضی گھر کا فرنیچر توڑ رہے ہیں۔

منزل ندارد

شیخ رضوان محلہ کے صقر ابو سلطان جو اپنے خاندان کا سامان تین پہیوں والی گاڑی پر رکھ رہے تھے نے کہا کہ وہ روانگی کی تیاری تو کر رہے ہیں لیکن انہیں منزل کا کچھ پتہ نہیں۔

صقر نے کہا کہ صورتحال انتہائی غیر یقینی ہے، وہ علاقہ چھوڑ تو رہے ہیں لیکن انہیں معلوم نہیں کہ جانا کہاں ہے۔ ’محفوظ علاقوں کی بات تو کی جاتی ہے لیکن کیا کوئی جگہ محفوظ بھی ہے؟‘

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امددای امور (اوچا) نے گزشتہ جمعہ کو کہا تھا کہ غزہ شہر پر جاری حملہ شدت اختیار کر گیا ہے، جس سے شہریوں اور ان سہولیات کو مزید نقصان پہنچا ہے جن پر ان کے زندہ رہنے کا انحصار ہے۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے علاقائی سربراہ اجیت سنگھے نے کہا کہ اطلاعات کے مطابق تقریباً دس لاکھ فلسطینی اب بھی شمالی غزہ میں موجود ہیں ور انہیں مغربی غزہ کے مسلسل سکڑتے علاقوں کی طرف زبردستی دھکیلا جا رہا ہے۔