پرتشدداحتجاجی مظاہروں میں20سے زیادہ ہلاکتیں‘ نیپال کے وزیراعظم کے پی شرما اولی مستعفی ہو گئے

وزیر داخلہ اور وزیر صحت سمیت تین وزرا نے اپنے عہدوں سے مستعفی ہوچکے ہیں‘مظاہرین کے اہم سیاسی راہنماﺅں کے گھروں پر حملے‘پارلیمنٹ کی عمارت میں توڑپھوڑکے بعد آگ لگادی

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 9 ستمبر 2025 15:22

پرتشدداحتجاجی مظاہروں میں20سے زیادہ ہلاکتیں‘ نیپال کے وزیراعظم کے ..
کھٹمنڈو(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔09 ستمبر ۔2025 )نیپال میں حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پر عائد پابندی ختم کرنے کے باوجود دارالحکومت کھٹمنڈو سمیت مختلف شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور کابینہ کے تین ارکان کے بعد منگل کو ملک کے وزیراعظم کے پی شرما اولی بھی مستعفی ہو گئے ہیں پرتشدد احتجاج کے دوران اب20سے زائد افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے.

(جاری ہے)

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق نیپال کے وزیر داخلہ اور وزیر صحت سمیت تین وزرا نے اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تاہم نوجوان مظاہرین ملک کے وزیراعظم کے پی اولی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے تھے آج دوپہر ان کا استعفیٰ بھی سامنے آ گیا وزیراعظم کے دستخط شدہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے موجودہ بحران کے آئینی حل کی راہ ہموار کرنے کے لیے استعفیٰ دیا ہے پیر کے روز شروع ہونے والے احتجاج کے بعد حکومت نے رات گئے سوشل میڈیا پر عائد پابندی تو ختم کر دی گئی تھی لیکن منگل کے روز بھی احتجاج کا سلسلہ جاری رہا.

احتجاجی مظاہروں کے دوران کئی سیاستدانوں کی رہائش گاہوں پر حملہ کیا گیا اور توڑ پھوڑ کی گئی، جن میں مستعفی ہونے والے وزیراعظم اولی اور سابق وزیر اعظم شیر بہادر دیوبا کے مکانات بھی شامل ہیں اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے ہیڈکوارٹرز کو بھی نشانہ بنایا گیا سول سروس ہسپتال کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر موہن ریگمی نے بتایا کہ منگل کے روز ہونے والے احتجاج کے دوران مزید دو افراد ہلاک ہوئے جبکہ 90 افراد ہسپتال میں زیر علاج ہیں.

یاد رہے کہ گزشتہ روز ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں نے دارالحکومت کھٹمنڈو میں پارلیمنٹ کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی اور حکومت سے فیس بک، ایکس، یوٹیوب سمیت 26 میڈیا پلیٹ فارمز سے پابندی ختم کرنے اور ملک میں جاری کرپشن کے خاتمے کا مطالبہ کیا دارالحکومت کھٹمنڈو کے علاوہ یہ مظاہرے ملک کے دیگر علاقوں میں بھی ہوئے، جن کی قیادت ملک کے نوجوان طبقے نے کی وزیر اطلاعات پریتھوی سبھا نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے پابندی ہٹانے کا فیصلہ پیرکو رات گئے کابینہ کے ہنگامی اجلاس کے بعد کیا گیا تاکہ ”جنریشن زی“ کے مطالبات کو حل کیا جائے ادھرانسانی حقوق کی تنظیم ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے ان ہلاکتوں کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے.

ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ مظاہرین کے خلاف گولہ بارود کا استعمال کیا گیا جبکہ ڈاکٹروں نے بتایا کہ مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کی گئی واضح رہے کہ پیرکے روز جب مظاہرین نے پارلیمنٹ اور دیگر سرکاری عمارتوں میں داخل ہونے کی کوشش کی تو سکیورٹی اہلکاروں نے انہیں روکنے کے لیے آنسو گیس اور واٹر کینن کا بھی استعمال کیا تھا جمعرات کے روز نیپال کی حکومت نے مبینہ طور پر حکومتی ضوابط کی خلاف ورزی پر ملک بھر میں 26 سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بلاک کر دیا تھا حکام نے سوشل میڈیا کمپنیوں کو نیپال کی وزارت برائے کمیونیکیشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ساتھ رجسٹر کرنے کی ڈیڈ لائن دی تھی.

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دارالحکومت کھٹمنڈو میں مظاہرین پارلیمنٹ کی عمارت کی حدود میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے وفاقی پارلیمنٹ کے احاطے میں توڑ پھوڑ اور آتشزدگی کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں نیپال کے وزیر اطلاعات پریتھوی سبھا نے بتایا کہ مظاہرین کو روکنے کے لیے پولیس کو طاقت کا استعمال کرنا پڑا سکیورٹی فورسز کی جانب سے امن بحال کرنے کی کوششوں کے دوران مظاہرین ہلاک اور زخمی بھی ہوئے زخمیوں کو مقامی ہسپتالوں میں لے جایا گیا جہاں لوگ پہلے سے جمع تھے ڈاکٹروں کے مطابق جن افراد کو یہاں لایا گیا انھیں براہ راست گولیوں اور ربڑ کی گولیوں کی وجہ سے زخم آئے.

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزیراطلاعات اور دیگر حکومتی عہدیدارو ںکے بارے میں یقینی طور پر کہنا مشکل ہے کہ وہ ملک میں موجود ہیں یا فرارہوچکے ہیں‘غیرملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ حکومت کے ترجمان اور دیگر عہدیدار فون پر رابطے کررہے ہیں تاہم ان کی ملک میں موجودگی پر کچھ کہنا ممکن نہیں ‘رپورٹ کے مطابق نیپال کے دیگر شہروں میں بھی پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم پرتشدد ہو گیا پولیس کے مطابق اتہاری میں پولیس کی فائرنگ سے دو مظاہرین ہلاک ہو گئے جس کے بعد وہاں کرفیو نافذ کر دیا گیا دھارن شہر میں بھی پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم ہوا کشیدگی کی وجہ سے ملک کے دیگر حصوں میں بھی کرفیو نافذ کر دیا گیا.