نیپال کی ممکنہ عبوری رہنما سوشیلا کارکی اور ان کا بھارتی کنکشن؟

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 11 ستمبر 2025 13:20

نیپال کی ممکنہ عبوری رہنما سوشیلا کارکی اور ان کا بھارتی کنکشن؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 ستمبر 2025ء) پرتشدد مظاہروں کے بعد فوج نے 3 کروڑ آبادی والے ہمالیائی ملک، نیپال میں امن بحال کرنے کے لیے کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ دو دہائیوں میں بدترین تشدد کی وجہ سے منگل کے روز وزیر اعظم کے پی اولی کو استعفیٰ دینا پڑا، مظاہرین نے پارلیمنٹ اور متعدد دیگر سرکاری عمارتوں کو آگ کے حوالے کر دیا۔

تشدد کے واقعات میں تیس سے زائد افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

فوج کے ترجمان کے مطابق، آرمی چیف جنرل اشوک راج سگدل نے بدھ کو اہم شخصیات اور "جین زی" نمائندوں سے ملاقات کی۔ ملاقات میں شریک ایک کارکن، رکشیا بام نے کہا ''فی الحال عبوری حکومت کی قیادت کے لیے سوشیلا کارکی کا نام سامنے آیا ہے، اب ہم صدر کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

‘‘

سوشیلا کارکی کے علاوہ کٹھمنڈو کے میئر بالن شاہ اور بجلی بورڈ کے سابق سربراہ کلمن گھسنگ کے نام بھی آئندہ رہنما کے طور پر زیرِغور آئے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری، رمن کمار کرن، جن سے مظاہرین نے مشاورت کی تھی، خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا، ''جین زی تحریک کے مظاہرین چاہتے ہیں کہ کارکی کو عبوری وزیرِاعظم بنایا جائے۔

‘‘

’جین زی‘ تحریک میں نوجوانوں کے درمیان مشہور اور کٹھمنڈو کے میئر، بالین شاہ نے بھی سوشیلا کارکی کے نام کی حمایت کی ہے۔

انہوں نے ایکس پر پوسٹ میں لکھا، ''عبوری حکومت کی قیادت کے لیے آپ لوگوں نے (نوجوانوں نے) سابق چیف جسٹس سوشیلا کارکی کا، جو نام دیا ہے، میں اس کی مکمل حمایت کرتا ہوں۔‘‘

ذرائع کے مطابق کارکی گوکہ یہ ذمہ داری قبول کرنے کے لیے ابتدا میں تیار نہیں تھیں تاہم پندرہ گھنٹے بعد انہوں نے اپنی رضامندی دے دی۔

سوشیلا کارکی کون ہیں؟

نیپال کی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ کے مطابق، سوشیلا کارکی کی پیدائش 7 جون 1952 کو نیپال کے بیراٹ نگر میں ہوئی۔ انہوں نے 1972 میں بیراٹ نگر سے گریجویشن کیا۔

1975 میں انہوں نے بھارت کی بنارس ہندو یونیورسٹی سے سیاسیات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور 1978 میں نپال کی تری بھون یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم مکمل کی۔

1979 میں انہوں نے بیراٹ نگر میں وکالت شروع کی۔ ان کی عدالتی زندگی کا اہم موڑ 2009 میں آیا جب انہیں سپریم کورٹ میں عارضی جج مقرر کیا گیا۔ سن دو ہزار دس میں وہ مستقل جج بن گئیں۔ 2016 میں کچھ عرصے کے لیے وہ قائم مقام چیف جسٹس رہیں اور 11 جولائی 2016 سے 6 جون 2017 تک نیپال کی پہلی خاتون چیف جسٹس کے طور پر خدمات انجام دیں۔

سوشیلا کارکی کے سخت رویے کی وجہ سے انہیں مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

اپریل 2017 میں اس وقت کی حکومت نے پارلیمنٹ میں ان کے خلاف مواخذے کی تحریک پیش کی۔ ان پرالزام تھا کہ انہوں نے جانبداری کی اور حکومت کے کام میں مداخلت کی۔ اس کے بعد انہیں عہدے سے معطل کر دیا گیا۔

عوام نے عدلیہ کی آزادی کے حق میں آواز بلند کی اور سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کو مزید کارروائی سے روک دیا۔

بڑھتے دباؤ کے باعث چند ہی ہفتوں میں پارلیمنٹ کو تحریک واپس لینا پڑی۔

اس واقعے کے بعد سوشیلا کارکی کی شناخت ایک ایسی جج کے طور پر بنی جو اقتدار کے دباؤ کے آگے نہیں جھکتی۔

سوشیلا کارکی نے کیا کہا؟

سوشیلا کارکی نے بھارتی ٹی وی چینل 'سی این این-نیوز 18‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’نوجوانوں نے مجھ سے درخواست کی اور میں نے قبول کر لیا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو ان پر بھروسہ ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ انتخابات کرائے جائیں اور ملک کو بدامنی سے نکالا جائے۔

نیپال کی موجودہ صورتحال پر کارکی کا کہنا تھا،''میری پہلی توجہ ان لڑکوں اور لڑکیوں پر ہوگی جو تحریک میں مارے گئے۔ ہمیں ان کے لیے اور ان کے خاندانوں کے لیے کچھ کرنا ہوگا جو شدید غم میں ہیں۔‘‘

انہوں نے واضح کیا کہ تحریک کا پہلا مطالبہ وزیرِاعظم کا استعفیٰ تھا، جو پورا ہو چکا ہے۔ اب اگلا مطالبہ ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ ہے۔

ان کے الفاظ میں،''باقی مطالبات اسی وقت پورے ہو سکتے ہیں جب حکومت تشکیل دی جائے۔‘‘

بھارت سے تعلقات

بھارت سے تعلقات کے بارے میں کارکی نے کہا، ''میں نے بی ایچ یو میں تعلیم حاصل کی ہے۔ وہاں کی بہت سی یادیں ہیں۔ میں آج بھی اپنے اساتذہ اور دوستوں کو یاد کرتی ہوں۔ گنگا ندی، اس کے کنارے ہاسٹل اور گرمیوں کی راتوں میں چھت پر بیٹھ کر بہتی گنگا کو دیکھنا آج بھی یاد ہے۔

‘‘

بھارت سے توقعات پر انہوں نے کہا، "بھارت اور نیپال کے تعلقات بہت پرانے ہیں۔ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں مگر عوام کا رشتہ بہت گہرا ہے۔ میرے بہت سے رشتہ دار اور جاننے والے بھارت میں ہیں۔ اگر انہیں کچھ ہوتا ہے تو ہمیں بھی آنسو آتے ہیں۔ ہمارے درمیان گہری اپنائیت اور محبت ہے۔ بھارت نے ہمیشہ نیپال کی مدد کی ہے۔ ہم بہت قریب ہیں۔

ہاں، جیسے کچن میں برتن اکٹھے ہوں تو کبھی آواز ہو جاتی ہے، ویسے ہی چھوٹے موٹے اختلاف ہو سکتے ہیں، مگر رشتہ مضبوط ہے۔‘‘

بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کارکی نے کہا، ''میں مودی جی کو سلام پیش کرتی ہوں۔ میرا مودی جی کے بارے میں اچھا تاثر ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا،''میں بھارتی رہنماؤں سے بہت متاثر ہوں… بھارتی دوست مجھے بہن کی طرح سمجھتے ہیں۔‘‘

ادارت: صلاح الدین زین