شمالی کوریا میں شہریوں پر لگی پابندیاں دنیا میں سب سے سخت گیر، رپورٹ

یو این ہفتہ 13 ستمبر 2025 07:00

شمالی کوریا میں شہریوں پر لگی پابندیاں دنیا میں سب سے سخت گیر، رپورٹ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 13 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ گزشتہ 10 برس کے دوران شمالی کوریا میں انسانی حقوق کی صورتحال میں بہتری آنے کے بجائے کئی حوالوں سے مزید بگاڑ دیکھا گیا ہے جس کے نتیجے میں وہاں کے لوگوں کو درپیش مشکلات بھی مزید شدت اختیار کر گئی ہیں۔

شمالی کوریا میں حقوق کی صورتحال پر اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) کی شائع کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں ایسے مزید قوانین، پالیسیاں اور طریقہ کار متعارف کرائے گئے ہیں جن کے ذریعے شہریوں کی نگرانی اور ان کی زندگی کے ہر پہلو پر حکومتی اختیار میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

Tweet URL

یہ رپورٹ شمالی کوریا میں 2014 سے اب تک کے حالات کا احاطہ کرتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے کسی اور ملک کی آبادی کو ایسی پابندیوں کا سامنا نہیں ہے جو شمالی کوریا میں لوگوں پر عائد ہیں۔

(جاری ہے)

ملک میں انسانی حقوق کی زوال پذیر صورتحال، اس کی خود ساختہ تنہائی اور جزیرہ نما کوریا میں امن و سلامتی کی صورتحال کا باہمی تعلق اس رپورٹ کا اہم پہلو ہے۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے کہا ہے کہ اگر شمالی کوریا اسی راہ پر گامزن رہا تو اس کے لوگوں کی تکالیف، ان پر روا رکھا گیا جبر اور طویل عرصہ سے انہیں لاحق خوف و خطرات مزید شدت اختیار کر جائیں گے۔

ناجائز قید اور جبری مشقت

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں سیاسی قیدیوں کے نظر بندی کیمپ اب بھی فعال ہیں۔ جمہوریہ کوریا، جاپان اور دیگر ممالک کے مغوی شہریوں سمیت ہزاروں لاپتہ افراد کا انجام تاحال نامعلوم ہے۔ شہریوں کو زندگی بھر ریاستی پروپیگنڈا مہم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ خوراک تک رسائی کا حق بھی پامال کیا جا رہا ہے اور بعض ریاستی پالیسیوں کے باعث غذائی قلت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ملک میں وسیع پیمانے پر سزائے موت دی جا رہی ہے۔ اظہار رائے کی آزادی اور اطلاعات تک رسائی کے حقوق میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے اور غیر ملکی میڈیا بشمول دیگر ممالک کے ڈراموں کو دیکھنے پر بھی سخت سزاؤں کا اطلاق کیا گیا ہے جن میں موت کی سزا بھی شامل ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ملکی آبادی پر نگرانی مزید وسیع گئی ہے۔

سیکڑوں افراد سے کی جانے والی بات چیت اور معاون مواد پر مبنی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں جبری مشقت بڑھ گئی ہے۔

اس حوالے سے ترتیب دیے گئے نام نہاد 'شاک بریگیڈز' میں غریب خاندانوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو کان کنی اور تعمیرات جیسے مشکل اور خطرناک شعبوں میں کام پر مجبور کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں، حالیہ برسوں میں حکومت نے ہزاروں یتیم اور بے گھر بچوں سے کوئلے کی کانوں اور دیگر خطرناک مقامات پر طویل مدتی مشقت لی ہے۔

© Unsplash/Micha Brändli
شمالی کوریا میں ملٹری پریڈ کے دوران لی گئی ایک تصویر۔

بہتری کی اطلاعات

'او ایچ سی ایچ آر' ملک میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی تفصیلات جمع کر رہا ہے جن میں ایسے واقعات بھی شامل ہیں جو بین الاقوامی جرائم کے زمرے میں آ سکتے ہیں جبکہ ریاست کے پاس کوئی خودمختار ادارے اور نظام موجود نہیں جو احتساب کو یقینی بنائے یا متاثرین کو موثر انصاف فراہم کر سکے۔

دفتر کو بعض معاملات میں قدرے بہتری آنے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔

ملک سے فرار ہونے والے لوگوں نے حراستی مراکز میں قیدیوں کے ساتھ سلوک میں معمولی بہتری کی نشاندہی کی ہے جس میں محافظوں کی جانب سے ان پر تشدد میں قدرے کمی آنا بھی شامل ہے۔

اطلاعات کے مطابق، قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں میں قیدیوں کے حقوق اور حراستی قواعد کے حوالے سے آگاہی میں اضافہ ہوا ہے۔ علاوہ ازیں، منصفانہ قانونی کارروائی اور قیدیوں کو بدسلوکی سے بچانے سے متعلق بعض قوانین بھی منظور کیے گئے ہیں یا اس بارے میں موجودہ قوانین میں ترمیم کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، شمالی کوریا کا بین الاقوامی انسانی حقوق کے نظام سے ربط بھی کسی حد تک برقرار ہے۔ اس کی جانب سے انسانی حقوق پر دو مزید معاہدوں کی توثیق کرنا اور بعض معاہداتی اداروں کو اطلاعات فراہم کرنے کی ذمہ داری پوری کرنا اس کی نمایاں مثال ہیں۔ تاہم، ریاست کی بین الاقوامی ذمہ داریوں اور اس کے شہریوں کی زندگی کی اصل حقیقت کے درمیان واضح تضاد اب بھی برقرار ہے۔

© Unsplash/Micha Brändli
شمالی کوریا کے دارالحکومت میں سکول کے بچوں کا ایک گروپ۔

اقوام متحدہ کی تجاویز

رپورٹ میں رکن ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور بین الاقوامی جرائم پر احتساب کو یقینی بنائیں جس میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کو بھیجے گئے اس معاملے پر طویل عرصہ سے زیرالتوا کارروائی کی تکمیل بھی شامل ہے۔

رپورٹ میں رکن ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ شمالی کوریا سے فرار ہونے والے شہریوں کو ان کی منشا کے بغیر واپس نہ بھیجیں اور انسانی حقوق کے استعمال پر پابندیوں کے منفی اثرات سے نمٹنے کی ضرورت کو بھی تسلیم کریں۔ اس میں حکومت کی انسانی حقوق سے وابستگی کو معتبر بنانے اور ایک نئے راستے کی جانب پیش قدمی کے لیے درج ذیل فوری اقدامات تجویز کیے گئے ہیں:

  • سیاسی قیدیوں کے کیمپوں اور اجتماعی قصور کے نظام کا خاتمہ
  • سزائے موت کے استعمال پر پابندی
  • قیدیوں کے لیے خاندانی روابط کی بحالی
  • حراستی مراکز میں تشدد اور بدسلوکی کا خاتمہ
  • ریاست کی جانب سے اغوا یا جبراً لاپتہ کیے گئے افراد کے بارے میں معلومات کی فراہمی
  • عوام میں انسانی حقوق سے متعلق آگاہی کا پھیلاو
  • اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق اور دیگر کو ملک کے دورے کی دعوت
  • زیر حراست افراد کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی جانب سے پیش کردہ تکنیکی معاونت کی قبولیت

وولکر ترک نے کہا ہے کہ یہ اقدامات شمالی کوریا کے عوام کو امید فراہم کریں گے کہ آزادی، مساوات اور حقوق پر مبنی بہتر مستقبل بھی ممکن ہے۔

اس رپورٹ کی تیاری کے دوران نوجوانوں سے کیے گئے سیکڑوں انٹرویو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ شمالی کوریا کے نوجوانوں میں تبدیلی کی خواہش بہت مضبوط ہے۔