غزہ کو صرف رحم کی نہیں بلکہ جنگ بندی کی ضرورت ہے، امدادی کارکن اولگا

یو این ہفتہ 13 ستمبر 2025 07:00

غزہ کو صرف رحم کی نہیں بلکہ جنگ بندی کی ضرورت ہے، امدادی کارکن اولگا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 13 ستمبر 2025ء) امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کی نمائندہ اولگا چیریوکو نے کہا ہے کہ غزہ شہر پر اسرائیل کا حملہ شروع ہونے کے بعد وہاں لوگوں کو گویا موت کی سزا کا سامنا ہے جن کے پاس علاقہ چھوڑنے یا ہلاک ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں اور دونوں صورتوں میں موت ان کا پیچھا کرے گی۔

غزہ سے ویڈیو لنک کے ذریعے نیویارک میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی فوج نے ہزاروں لوگوں کو علاقہ خالی کرنے کا حکم دے رکھا ہے جبکہ انہیں کہیں بھی کوئی محفوظ ٹھکانہ میسر نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے ایک دوست نے جنوبی علاقے کی جانب نقل مکانی کی کوشش لیکن ناکام رہے۔ ان کے آٹھ سالہ کزن گزشتہ ہفتے روٹی کی تلاش میں نکلے لیکن اسرائیل کی بمباری میں کئی دیگر بچوں کے ساتھ ہلاک ہو گئے تھے۔

(جاری ہے)

جب یہ حملہ ہوا تو ان کی دو سالہ بیٹی کھانا تقسیم کرنے کے مرکز میں ان کے ساتھ موجود تھی جو بمباری ہونے پر ایک میز کے نیچے جا چھپی۔

اولگا چیریوکو نے کہا کہ غزہ کو رحم کی ضرورت نہیں بلکہ اس ہولناک تشدد کا خاتمہ درکار ہے۔ علاقے میں ہر جا موت کا راج ہے جہاں ملبے تلے ماں باپ اور بچوں کی لاشیں دبی ہیں۔ ہنسے، رونے اور خواب دیکھنے والے لوگوں کی زندگیاں اس جنگ کی نذر ہو گئی ہیں جن میں بہت سے لوگوں کا کوئی نشان باقی نہیں رہا۔

© UNICEF/Mohammed Nateel
غزہ کے 80 فیصد سے زیادہ علاقے سے یا تو انخلا کے احکامات دیے جا چکے ہیں یا انہیں اسرائیل کی جانب سے عسکری زون قرار دیا گیا ہے۔

موت اور قحط کے خلاف جدوجہد

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ روز غزہ میں سفر کے دوران انہیں کوئی راستہ سلامت نہیں ملا اور ہر جگہ نقل مکانی کرنے والے لوگوں کے قافلے دکھائی دیے جو اس ہولناکی کو ختم کرنے کی التجا کر رہے تھے۔

اپنے والد کے ساتھ جاتی ایک ننھی بچی نے انہیں دیکھ کر ہاتھ ہلایا اور ان کے ساتھ مصافحہ کیا۔ نجانے وہ زندہ بھی رہ پائے گی یا نہیں؟ نجانے اس جنگ کو روکنے کی قدرت رکھنے والے عالمی رہنماؤں کو یہ احساس ہو گا یا نہیں کہ یہ بچی امن کی حق دار ہے اور اس کی زندگی انہی لوگوں کے رحم و کرم پر ہے۔

والدین اپنے بچوں کو تشدد، بھوک، اور خوف سے بچانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ راستے نقل مکانی کرنے والے خاندانوں سے اٹے ہیں۔ لوگ اپنے بچوں کو اٹھائے مارے مارے پھرتے ہیں جنہیں سمجھ نہیں آتی کہ وہ کہاں جائیں کیونکہ تمام راستے بند ہو چکے ہیں۔ موت اور قحط سے بچنے کی جدوجہد میں امدادی کارکنوں کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ دلدل میں بھاگ رہے ہوں کیونکہ اسرائیلی حکام کی جانب سے امدادی کارروائیوں کو تواتر سے روکا اور موخر کیا جا رہا ہے۔

© UNICEF/Eyad El Baba
غزہ کا ایک بچہ اپنے گھر کے ملبے پر بیٹھا ہے۔

انسانیت کی چمک

انہوں نے کہا کہ ان تکلیف اور مصائب کے درمیان انسانیت کی چمک بھی دکھائی دیتی ہے۔ فلسطینی ڈاکٹر، نرسیں اور دیگر طبی عملہ اکثر تنخواہ، دواؤں اور بجلی کے بغیر دن رات کام کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے، ریڈ کراس اور مقامی و بین الاقوامی این جی اوز کے امدادی کارکن گولیوں کی بارش میں لوگوں کو خوراک، دوا اور صاف پانی پہنچاتے ہیں۔

عام لوگ مشکل ترین حالات میں بھی دوسروں کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں اور یہ سب کچھ اس ظلم کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان ہے۔

بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا ان کے پاس اب بھی کوئی امید باقی ہے؟ شاید امید ہی وہ سب کچھ ہے جو باقی بچا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ غزہ کے لوگ خیرات نہیں مانگ رہے بلکہ وہ اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ محفوظ، باعزت، اور پُرامن زندگی گزارنے کا حق۔

مشترکہ انسانیت عمل کا تقاضا کرتی ہے اور تاریخ میں الفاظ نہیں بلکہ عمل کو ہی یاد رکھا جائے گا کہ جب غزہ جل رہا تھا، بچے بھوک سے ہلاک ہو رہے تھے اور ہسپتالوں کو تباہ کیا جا رہا تھا تو آپ نے کون سا قدم اتھایا؟ آج اور ہر دن، عالمی برادری کے پاس اپنے الفاظ کو عمل میں بدلنے کا ایک نیا موقع ہے جسے ضائع نہیں کرنا چاہیے کہ شاید یہ آخری موقع ہو۔