کیا ترقی پذیر ممالک میں باہمی تعاون سے منصفانہ دنیا کا وجود ممکن؟

یو این ہفتہ 13 ستمبر 2025 07:00

کیا ترقی پذیر ممالک میں باہمی تعاون سے منصفانہ دنیا کا وجود  ممکن؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 13 ستمبر 2025ء) ترقی پذیر ممالک کو درپیش مشکلات اور مسائل کے باوجود ان کے مابین تعاون عالمگیر ترقیاتی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے درکار غیرمعمولی تبدیلی کی راہ ہموار کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ جنوبی دنیا کے ممالک میں باہمی تعاون کا تصور یہیں سے ابھرا ہے۔

جنوبی دنیا کے مابین تعاون ایک ایسا عمل ہےجس کے ذریعے ترقی پذیر ممالک اپنی جغرافیائی حیثیت سے قطع نظر حکومتوں، علاقائی اداروں، سول سوسائٹی، ماہرین علم اور نجی شعبے کی شراکتوں کے ذریعے علم، صلاحیتوں اور وسائل کا تبادلہ کر کے انفرادی یا اجتماعی ترقیاتی اہداف حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جنوبی دنیا کا حصہ کہلانے والے زیادہ تر ممالک کے تجربات اور اہداف آپس میں ملتے جلتے ہیں کیونکہ یہ ممالک نوآبادیاتی دور کے بعد اپنے مستقبل کی سمت متعین کر رہے ہیں اور اپنے عوام کی ترقیاتی ضروریات پوری کرنے کی جدوجہد میں لگے ہیں۔

(جاری ہے)

یہی وجہ ہے کہ ان کے درمیان تعاون کسی جبر یا ناقابل حصول شرائط کے بغیر باہمی تعاون، یکجہتی، انصاف، خودمختاری اور قومی ملکیت کے احترام سے عبارت ہوتا ہے۔

عالمی سطح پر اور اقوام متحدہ کے نظام کے اندر ان کوششوں کی حمایت کے لیے جنرل اسمبلی نے اقوام متحدہ کا دفتر برائے جنوب-جنوب تعاون (یو این او ایس ایس سی) قائم کر رکھا ہے جس کی میزبانی اقوام متحدہ کا ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے پاس ہے۔

© FAO
اقوام متحدہ کا دفتر برائے جنوب-جنوب تعاون (یو این او ایس ایس سی) کی ڈائریکٹر دیما خطیب روم میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہی ہیں۔

مسائل کے حل کا عالمی مرکز

یہ دفتر باہمی تعاون کی قوت کو بروئے کار لاتے ہوئے جنوبی دنیا کے مابین اور سہ فریقی تعاون کو فروغ دینے اور اسے آسان بنانے کی ذمہ داریاں انجام دیتا ہے جہاں دو یا زیادہ ترقی پذیر ممالک کسی ترقی یافتہ ملک یا کثیرالفریقی تنظیم کی مدد سے ترقیاتی پروگراموں اور منصوبوں پر عملدرآمد کرتے ہیں۔

دفتر پالیسی سازی اور اس پر عملدرآمد میں مدد فراہم کرتا، استعداد کار کو مضبوط بناتا اور ترقیاتی وسائل کا انتظام کرتا ہے جو بنیادی طور پر جنوبی دنیا کے ممالک ہی فراہم کرتے ہیں۔

یہ دفتر علم، ٹیکنالوجی، مسائل کے اختراعی حل اور بہترین تجربات کے تبادلے کو بھی فروغ دیتا ہے جن میں آن لائن پلیٹ فارم 'جنوب۔جنوب کہکشاں' کے ذریعے اشتراک عمل بھی شامل ہے۔

مختصر یہ کہ، دفتر ایک عالمی مرکز کے طور پر کام کر رہا ہے جہاں رکن ممالک، شراکت دار اور لوگ ایک جگہ جمع ہو کر مسائل کے حل کا تبادلہ کرتے ہیں اور ایسی شراکتیں بناتے ہیں جن سے پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔

نئے مواقع اور اختراعات

'یو این او ایس ایس سی' کی ڈائریکٹر دیما خطیب نے یو این نیوز کو ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ جنوبی ممالک میں ترقی کا پہیہ آگے بڑھانے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے کیونکہ یہ ممالک دنیا کی 80 فیصد آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں اور مضبوطی، جدت، اور بے پایاں انسانی و قدرتی وسائل کا سرچشمہ ہیں جن سے تاحال پوری طرح کام نہیں لیا جا سکا۔

انہوں نے کہا کہ رواں سال جنوبی دنیا کے عالمی دن کا موضوع 'جنوب-جنوب اور سہ فریقی تعاون کے ذریعے نئے مواقع اور جدت کا حصول' نہایت بر وقت اور موزوں ہے۔

جنوبی دنیا کے ممالک کو صرف مسائل کا سامنا نہیں بلکہ ان کے پاس مسائل کے حل اور اختراع کے مواقع بھی موجود ہیں۔ ان کے اس قائدانہ کردار کی حمایت اور حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اور اسے اجاگر کیا جانا چاہیے۔

COP28/Anthony Fleyhan
دبئی میں موسم پر اقوام متحدہ کی کانفرنس ’کاپ28‘ کے موقع پر سو فیصد بجلی پر چلنے والی بس بھی نمائش میں رکھی گئی تھی۔

مالیات برائے ترقی: نئی سمت

جنوبی دنیا کے ممالک کو متعدد اور باہم پیوسط بحرانوں کا سامنا ہے جن میں بڑھتی ہوئی جغرافیائی و سیاسی کشیدگی، قرضوں کا بوجھ، ڈیجیٹل خلیج میں اضافہ اور سماجی پیچیدگیاں خاص طور پر اہم ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے انسانی امداد اور ترقیاتی وسائل کی فراہمی میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔

دیما خطیب کے مطابق، اس صورتحال میں ترقی پذیر ممالک باہمی تعاون بڑھا رہے ہیں جو کہ ترقیاتی مالی وسائل کی فراہمی کا اہم ترین ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔

جوں جوں سرکاری ترقیاتی امدادمیں کمی آتی جائے گی، یہ رجحان مزید بڑھے گا، کیونکہ یہ ممالک اپنی ترقی کے لیے مالی وسائل فراہم کرنے کے مؤثر متبادل تلاش کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں، جنوب-جنوب اور سہ فریقی تعاون نہایت مؤثر ثابت ہوا ہے۔

اس تعاون کے ذریعے معاشی توازن کو تبدیل کرنے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور مقامی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے میں مدد مل سکتی ہے جبکہ ایتھوپیا، پیراگوئے، روانڈا اور دیگر ترقی پذیر ممالک نے ایسا کر دکھایا ہے۔

کامیابی کی مثالیں

مشرقِ وسطیٰ میں بالخصوص قابل تجدید توانائی، ڈیجیٹل ترقی اور موسمیاتی تبدیلی کے موافق اقدامات کے شعبوں میں جنوب-جنوب تعاون کے لیے بہت سے امکانات موجود ہیں۔ مثال کے طور پر، مراکش میں بڑے پیمانے پر شمسی توانائی کے منصوبوں کا تجربہ ذیلی صحارا افریقہ کے کچھ حصوں میں قابلِ تجدید توانائی کے منصوبوں کے لیے ایک مثالی نمونے کے طور پر استعمال ہوا ہے۔

دیما خطیب نے کہا ہے کہ خلیجی ممالک نہ صرف بحرانوں کے وقت دوسروں کو مالی معاونت فراہم کرتے ہیں بلکہ اب وہ اپنی مہارتوں کے تبادلے میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، سعودی عرب کو سمندری پانی کی صفائی کا وسیع تجربہ حاصل ہے جس کا وہ خشک سالی کا سامنا کرنے والے ممالک کے ساتھ تبادلہ کر رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے مصدر سٹی میں ایسے تجربات، تحقیق اور صلاحیتوں کی ترقی جاری ہے جن سے جنوبی دنیا کے بہت سے ممالک استفادہ کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ اسلامی ترقیاتی بینک 'آئی ایس ڈی بی' ترقی کی رفتار کو بڑھانے میں ایک کلیدی محرک رہا ہے۔ یہ بینک اپنے 57 رکن ممالک کے درمیان علم کے تبادلے کو فروغ دیتا اور آبپاشی کی جدید ٹیکنالوجی، پائیدار زراعت اور موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں مضبوط بنیادی ڈھانچے کی ترقی جیسے اقدامات میں تعاون فراہم کرتا ہے۔

Photo: Dominic Sansoni/World Bank
سری لنکا کی بندرگارہ پر تجارتی سامان اتارا اور لادا جا رہا ہے۔

کثیرالفریقیت کی قوت محرکہ

دیما خطیب کا کہنا ہے کہ دور حاضر کی کشیدہ عالمی سیاسی صورتحال کے تناظر میں جنوب-جنوب تعاون ایک ایسی قوت محرکہ بن سکتا ہے جس سے کثیرالفریقی نظام کو نئی مضبوطی مل سکتی ہے۔ تاہم، یہ کبھی بھی تمام ممالک کے درمیان تعاون کا متبادل نہیں ہو سکتا۔

انہوں بتایا ہے کہ جنوبی دنیا کے ممالک اب ایک دوسرے کے ساتھ جُڑ کر رہنما کردار ادا کر رہے ہیں۔

انڈیا-یو این ڈویلپمنٹ پارٹنرشپ فنڈ اور انڈیا-برازیل-ساؤتھ افریقہ فنڈ جنوبی دنیا کے ممالک کی ایک دوسرے کے ساتھ جڑت اور رہنما کردار کی نمایاں مثالیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ سرحد پار تعاون نہ صرف ممکن ہے بلکہ مؤثر بھی ہے۔ شمالی و جنوبی دنیا کے مابین تقسیم نہیں ہونی چاہیے بلکہ دنوں کے درمیان پل تعمیر ہونا چاہئیں اور اقوام متحدہ یہ کردار بخوبی نبھا سکتا ہے۔