اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 18 ستمبر2025ء) سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے بچوں کے تحفظ، مدارس کو ریگولیٹ کرنے اور بدسلوکی کے لیے زیرو ٹالرینس کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔ کمیٹی نے کہا ہے کہ کسی بچے کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے ۔ کمیٹی کا اجلاس سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری کی زیر صدارت جمعرات کو یہاں پارلیمنٹ ہائوس اسلام آباد میں منعقد ہوا۔
اجلاس میں وفاقی اور صوبائی حکام پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ نے مدارس و مدارس کے زیر انتظام محکمہ جات میں جسمانی سزاؤں، تشدد اورزیادتیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات اور ان کے سدباب کیلئے مدارس انتظامیہ اور متعلقہ محکموں کے اٹھائے گئے اقدامات پر تفصیلی بریفنگ دی ۔ سینیٹ سیکرٹریٹ سے جاری پریس ریلیز کے مطابق چیئرپرسن سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے اس بات پر زور دیا کہ ریاست کی اولین ذمہ داری بچوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے، چاہے وہ اسکولوں میں داخل ہوں یا مدارس میں ۔
(جاری ہے)
انھوں نے واضح کیا کہ اس کا مقصد جائز مذہبی اداروں کو نشانہ بنانا نہیں بلکہ بدسلوکی کا خاتمہ اور نگرانی کو مضبوط بنانا ہے۔ سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے موثر رجسٹریشن، مالیاتی شفافیت اور ان اداروں تک رسائی کی عدم موجودگی پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے فوری اور عملی اقدامات پر زور دیا، جن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سرکاری اہلکاروں کے مدارس کے باقاعدہ دورے، والدین اور استاد کی لازمی ملاقات، جسمانی سزا پر پابندی کے لیے ایس او پیز کی تشکیل، بچوں کے تحفظ اور دماغی صحت سے متعلق اساتذہ کی تربیت، اور احتساب کو یقینی بنانے کے لیے مالی رجسٹریشن کے تقاضوں کی سختی سے تعمیل شامل ہے۔
انھوں نے رپورٹ شدہ کیسوں میں سزا کی انتہائی کم شرح پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ مضبوط استغاثہ کے بغیر بدسلوکی کا سلسلہ نہیں توڑا جا سکتا۔ اجلاس کے دوران سینیٹر ایمل ولی خان نے کہا کہ بہت سے مدارس قومی تعلیمی فریم ورک میں ضم ہونے کے بجائے بتدریج ریونیو سسٹم میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ انہوں نے جامع قانون سازی، مالیاتی شفافیت، اور مدارس کو مرکزی دھارے کے تعلیمی بورڈز کے تحت شامل کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیا تاکہ احتساب لایا جا سکے اور متوازی، غیر منظم طریقوں کو ختم کیا جا سکے۔
اراکین نے بچوں کی حفاظت اور مؤثر نگرانی کو یقینی بنانے کے لیے ضلعی سطح کی ہدایات، ہم آہنگ صوبائی قانون سازی، اور واضح ریگولیٹری میکانزم کی سفارش کی۔کمیٹی نے کامسیٹس یونیورسٹی کے ایک طالب علم کے مالی حالات اور مرحوم والد سے منسلک توہین آمیز ریمارکس، ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے شکایات کو خارج کرنے اور مبینہ انتقامی گریڈنگ سے متعلق معاملہ بھی اٹھایا۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ 19 جون کا واقعہ کلاس پریزنٹیشن کے دوران پیش آیا جب طالب علم اور انسٹرکٹر کے درمیان غلط فہمی بڑھ گئی۔ بتایا گیا کہ بعد میں معاملہ صلح صفائی سے حل ہو گیا اور انسٹرکٹر نے خود طالب علم کو لیپ ٹاپ فراہم کیا۔کمیٹی نے اس کو نوٹ کرتے ہوئے زور دیا کہ یہ واقعہ گہری تشویش کی عکاسی کرتا ہے۔ چیئرپرسن سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے اس بات پر زور دیا کہ کسی بھی طالب علم کو اس کے مالی پس منظر کی وجہ سے شرمندہ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس طرح کے اقدامات جذباتی تکلیف کا باعث بنتے ہیں اور دیرپا نفسیاتی اثرات چھوڑ سکتے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ معروف یونیورسٹیوں کو رواداری اور ہمدردی کو فروغ دینا چاہیے جبکہ طالب علموں کو حساسیت کے ساتھ سنبھالنے کے لیے اساتذہ کو تربیت فراہم کرنے کی سفارش کی گئی۔ چیئرپرسن نے مزید مشورہ دیا کہ تادیبی تحفظات کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں اور ایچ ای سی کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اساتذہ اور طلبہ دونوں کو باعزت رابطے، رواداری سے متعلق آگاہی کی تربیت دی جائے، تاکہ ایسے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔
اجلاس کو وزارت خارجہ اور داخلہ کی جانب سے بیرون ملک قید پاکستانی شہریوں کی صورتحال پر بھی بریفنگ دی گئی۔ اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ پاکستانی شہریوں کی حالت زار سے نمٹنے کے لیے مسلسل قونصلر مداخلت، مشن کی سطح پر مصروفیات، اور ایف آئی اے کے ساتھ مل کر بہتر اسکریننگ کی جا رہی ہے۔ وزارت خارجہ کے نمائندے نے قیدیوں کی منتقلی کے محدود معاہدوں، میزبان ریاستوں کی خودمختار پابندیوں، وسائل کی کمی اور دستاویزات میں خلاء جیسے چیلنجوں بارے آگاہ کیا۔
وزارت داخلہ کے نمائندے نے بتایا کہ وطن واپسی صرف ان ممالک کے ساتھ آگے بڑھ سکتی ہے جہاں معاہدے موجود ہیں، اور اس بات کی تصدیق کی کہ ترجیحی منتقلی کی ایک محدود تعداد کو حال ہی میں انجام دیا گیا ہے۔چیئرپرسن سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے یقین دہانیوں سے بڑھ کر ٹھوس کارروائی اور احتساب پر زور دیا۔ انہوں نے ملک وار مقدمات کی فہرستوں، مداخلتوں کے واضح ریکارڈ اور طویل حراست کا سامنا کرنے والے پاکستانیوں کی حفاظت کے لیے کیے گئے اقدامات کے ثبوت پر زور دیا۔
انہوں نے دفتر خارجہ، وزارت داخلہ، ایف آئی اے اور وفاقی محتسب کے درمیان مضبوط رابطہ کاری کے ساتھ ساتھ قونصلر رسائی، کیس کی منظم طریقے سے باخبر رہنے اور وطن واپسی کی کوششوں کے حوالے سے شفاف رپورٹنگ پر زور دیا۔ چیئرپرسن نے وزارتوں کو مزید ہدایت کی کہ وہ قانونی معاونت، قونصلر سپورٹ اور واپس آنے والوں کی بحالی کے لیے مقررہ وقت کی فراہمی کے ساتھ ایک مربوط قومی حکمت عملی تیار کریں اور آئندہ اجلاس میں تفصیلی ایکشن پلان پیش کریں۔
اجلاس میں سینیٹرز پونجو بھیل، سید مسرور احسن، ایمل ولی خان، خلیل طاہر، عطاء الحق، اور قرۃ العین مری (آن لائن)، قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) کی چیئرپرسن، قومی کمیشن برائے تحفظ اطفال کی چیئرپرسن (این سی آر سی)، وزارت تعلیم، وزارت اوورسیز پاکستانیز و ترقی انسانی وسائل کے جوائنٹ سیکرٹریز سمیت وزارت خارجہ و داخلہ ،کامسیٹس یونیورسٹی کے نمائندوں اور متعلقہ محکموں کے سینئر حکام نے شرکت کی۔