Live Updates

حکومت ماحول، معیشت اور عوام کے تحفظ کے لیے پائیدار پالیسیوں کے نفاذ کے لیے پرعزم ہے ، محمد جنید انوار چوہدری

ہفتہ 20 ستمبر 2025 20:30

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 ستمبر2025ء) وفاقی وزیر برائے بحری امور محمد جنید انوار چوہدری نے کہا ہے کہ حکومت ماحول، معیشت اور عوام کے تحفظ کے لیے پائیدار پالیسیوں کے نفاذ کے لیے پرعزم ہے،سمندروں کے تحفظ اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کےلئے پائیدار اور ماحول دوست طریقے اپنانے کی ضرورت ہے۔ہفتہ کوورلڈ کلین اپ ڈے 2025 کے موقع پرجس کا موضوع سرکلر فیشن کے ذریعے ٹیکسٹائل اور فیشن ویسٹ کا تدارک ہے۔

انہوں نے کہاکہ سمندروں میں فیشن اور ٹیکسٹائل کا بڑھتا ہوا فضلہ نہ صرف سمندری حیات کو متاثر کر رہا ہے بلکہ ماحولیاتی استحکام اور معیشت کے لیے بھی سنگین خطرہ بن چکا ہے۔محمد جنید انوار چوہدری نے اس موقع پر وزیر اعظم پاکستان کے موسمیاتی تبدیلی کو اولین ترجیح دینے کے عزم کو بھی سراہا اور کہا کہ حکومت ماحول، معیشت، اور عوام کے تحفظ کے لیے پائیدار پالیسیاں لاگو کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

(جاری ہے)

ورلڈ کلین اپ ڈے ایک عالمی مہم ہے جو زمین اور سمندری کوڑا کرکٹ اور فضلے کے خلاف جدوجہد کے لیے منائی جاتی ہے، اور اس بار اس کا مرکز ٹیکسٹائل آلودگی کے بڑھتے ہوئے مسئلے پر ہے،ہماری سمندری حیات براہِ راست ہماری عوام، معیشت اور کرۂ ارض کی فلاح سے منسلک ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ صنعتوں، پالیسی سازوں اور شہریوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ٹیکسٹائل اور فیشن کے فضلے کے خطرات کو تسلیم کریں اور ایک ایسا سرکلر اکانومی ماڈل قائم کرنے کے لیے مل کر کام کریں جو روزگار اور حیاتیاتی تنوع دونوں کی حفاظت کرے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان کا ٹیکسٹائل اور فیشن کا شعبہ جو دنیا کے بڑے شعبوں میں سے ایک ہے اور ملکی برآمدات کا تقریباً 60 فیصد پیدا کرتا ہے، فضلہ اور آلودگی میں بھی نمایاں حصہ رکھتا ہے۔ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیکسٹائل کا فضلہ دریاؤں اور سمندروں میں مائیکروپلاسٹک کی آلودگی کا بڑا سبب ہے، جو مچھلیوں، مونگے اور ساحلی ماحولیاتی نظام جیسے اہم سمندری حیات کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔

ہر سال ٹنوں کے حساب سے ٹیکسٹائل کا فضلہ لینڈ فلز اور پانی کی نالیوں میں پھینکا جاتا ہے۔ مصنوعی کپڑوں سے نکلنے والے مائیکروفائبرز سمندری جانور کھا جاتے ہیں جس سے غذائی زنجیر متاثر ہوتی ہے اور وہ انواع مزید دباؤ میں آ جاتی ہیں جو پہلے ہی ماحولیاتی تبدیلی، حد سے زیادہ شکار اور رہائش گاہوں کی تباہی کا شکار ہیں۔وفاقی وزیر نے اس بات پر زور دیا کہ یہ مسئلہ صرف ماحولیاتی نہیں بلکہ اقتصادی بھی ہے کیونکہ پاکستان کی بلیو اکانومی جس میں ماہی گیری، شپنگ، سیاحت، اور ساحلی صنعتیں شامل ہیں ، آلودہ پانی اور ماحولیاتی تباہی کی وجہ سے بڑے نقصانات کا سامنا کر رہی ہے۔

ماہی گیری (فشریز) کے شعبے میں صرف آلودگی سے ہونے والے نقصانات سالانہ 200 ملین امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں، جبکہ ساحلی سیاحت کی ممکنہ صلاحیت ابھی تک پوری طرح استعمال نہیں کی جا سکی۔ انہوں نے ٹیکسٹائل کے فضلے اور ماحولیاتی تبدیلی کے درمیان تعلق پر بھی روشنی ڈالی اور بتایا کہ ٹیکسٹائل کا شعبہ پانی کا ایک بڑا صارف ہے اور گرین ہاؤس گیسز کا اہم اخراج کنندہ بھی۔

جب کپڑے کوڑے دان میں پھینک دیے جاتے ہیں تو وہ لینڈ فلز میں میتھین گیس خارج کرتے ہیں جو ایک انتہائی خطرناک ماحولیاتی آلودہ ہےاور یہ عالمی حدت میں اضافہ کر کے ساحلی برادریوں کو مزید خطرے سے دوچار کرتا ہے جو پہلے ہی سمندری سطح کے بڑھنے اور شدید موسمی حالات کا سامنا کر رہی ہیں۔ سرکلر فیشن جو دیرپا، دوبارہ استعمال کے قابل اور ری سائیکل کیے جانے والے مصنوعات کو فروغ دیتا ہے، نہ صرف اخراجات کو کم کرنے، وسائل کے تحفظ، بلکہ موسمیاتی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کا ایک مؤثر طریقہ ہے۔

یہ نقطہ نظر خاص طور پر پاکستان جیسے ملک کے لیے اہم ہے، جو موسمیاتی بحران کی فرنٹ لائن پر موجود ہے اور بڑھتے ہوئے ماحولیاتی خطرات سے دوچار ہے۔یہ چیلنج اتنا بڑا ہے کہ حکومت اکیلے اس سے نہیں نمٹ سکتی،ہمیں پبلک-پرائیویٹ شراکت داری، تعلیمی اداروں سے تعاون، اور شہریوں کی فعال شمولیت کی ضرورت ہے۔ پائیدار برانڈز کی حمایت، ضرورت سے زیادہ خریداری سے گریز، اور کپڑوں کی ری سائیکلنگ جیسے اقدامات اجتماعی طور پر بڑا فرق پیدا کر سکتے ہیں۔وفاقی وزیر نے تمام فریقین سے اجتماعی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی تاکہ سمندری ماحولیاتی نظام کی حفاظت کی جا سکے،معیشت کو مستحکم بنایا جا سکے اور سب کے لیے ایک پائیدار مستقبل یقینی بنایا جا سکے۔
Live ایشیاء کپ سے متعلق تازہ ترین معلومات