لداخ: ریاستی حیثیت کے لیے پر تشدد مظاہرے

DW ڈی ڈبلیو بدھ 24 ستمبر 2025 15:20

لداخ: ریاستی حیثیت کے لیے پر تشدد مظاہرے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 ستمبر 2025ء) بھارت کے زیر انتظام خطہ لداخ کے لیہہ شہر میں بدھ کے روز مشتعل مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں اور مشتعل ہجوم نے سکیورٹی اہلکاروں پر پتھراؤ کیا اور پولیس ایک گاڑی کو بھی نذر آتش کر دیا۔

مودی حکومت نے لداخ کو کشمیر علیحدہ کر کے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا تھا، جس کے خلاف اب تحریک جاری ہے، تاہم اس دوران تشدد کی یہ پہلی مثال ہے۔

بدھ کے روز سینکڑوں مظاہرین ریاست کا درجہ بحال کرنے اور آئینی تحفظات کا مطالبہ کرتے ہوئے لیہہ کی سڑکوں پر نکل آئے۔

مشتعل مظاہرین نے لداخ کے لیہہ میں بی جے پی کے دفتر پر حملہ کردیا اور پولیس پر پتھراؤ کیا۔ جواباً پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کی اور لاٹھی چارج کا سہارا لیا۔

(جاری ہے)

حالیہ برسوں میں شاید یہ پہلا موقع ہے کہ لداخ میں اس طرح کی جھڑپیں دیکھنے میں آئی ہیں۔

گزشتہ دو ہفتوں سے ماحولیات کے معروف کارکن سونم وانگچوک لداخ کو ریاست کا درجہ دینے اور اس خطے کو آئین کے چھٹے شیڈول میں شامل کرنے کے لیے بھوک ہڑتال کر رہے ہیں۔

پچھلے تین سالوں کے دوران لداخ میں براہ راست مرکزی حکومت کے زیر انتظام حکمرانی کے خلاف بڑھتی ہوئی ناراضگی دیکھی گئی ہے۔ یہاں کے باشندے بار بار اپنی زمین، ثقافت اور وسائل کی حفاظت کے لیے ریاست اور آئینی تحفظات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے آرٹیکل 370 کی منسوخی اور جموں و کشمیر کی تقسیم کے بعد اگست 2019 میں لداخ کو ایک علیحدہ مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا تھا۔

اس وقت لیہہ میں بہت سے لوگوں نے اس اقدام کا خیرمقدم کیا تھا۔ لیکن ایک سال کے اندر ہی اس کے خلاف تشویش بڑھنے لگی اور لوگ مودی حکومت کی انتظامیہ سے تنگ آنے لگے۔

اس عدم اطمینان نے بڑے پیمانے پر احتجاج اور بھوک ہڑتالوں کو جنم دیا۔

اس بار بدھ مت کی اکثریتی آبادی لیہہ اور مسلم اکثریتی کارگل کے سیاسی اور مذہبی گروہوں نے ایک مشترکہ پلیٹ فارم کے تحت ہاتھ ملایا ہے اور وہ مرکز کے خلاف ایک تحریک چلا رہے ہیں۔

اس کے جواب میں مرکز نے لداخ کے مطالبات کی جانچ کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کی، تاہم، مذاکرات کے پے در پے دوروں میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ مقامی رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ مرکزی وزارت داخلہ ان کے بنیادی مطالبات کو مسترد کر رہی ہے۔