Live Updates

سہیل آفریدی نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ کے عہدے کا حلف اٹھالیا

گورنر فیصل کریم کنڈی نے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے نو منتخب وزیراعلیٰ سے عہدے کا حلف لیا

Sajid Ali ساجد علی بدھ 15 اکتوبر 2025 16:40

سہیل آفریدی نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ کے عہدے کا حلف اٹھالیا
پشاور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 15 اکتوبر2025ء ) پاکستان تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی سہیل آفریدی نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ کے عہدے کا حلف اٹھالیا، حلف برداری کی یہ تقریب گورنر ہاؤس پشاور میں منعقد ہوئی جہاں گورنر خیبرپختونخواہ فیصل کریم کنڈی نے نو منتخب وزیراعلیٰ سے عہدے کا حلف لیا۔ تفصیلات کے مطابق سہیل آفریدی کے حلف کی راہ اس وقت ہموار ہوئی جب پشاور ہائیکورٹ نے نومنتخب وزیر اعلیٰ کے انتخاب کیخلاف جے یو آئی ف کی درخواست خارج کردی، پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس سید ارشدعلی اور جسٹس وقاراحمد نے جے یو آئی ف کی درخواست پر سماعت کا آغاز کیا تو پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے اعتراض اٹھاتے مؤقف اپنایا کہ ’گزشتہ روز چیف جسٹس نے وزیراعلیٰ سے حلف لینے کے احکامات جاری کیے، جس سے یہ درخواست غیرموثر ہوگئی‘، اس پر جسٹس ارشد علی نے کہا کہ ’جی ہمیں چیف جسٹس کے آرڈر کا علم ہے، آپ دوسرے فریق کو فی الحال دلائل پیش کرنےدیں‘۔

(جاری ہے)

جے یو آئی ف کے وکیل بیرسٹر یاسین نے دلائل میں کہا کہ ’گورنر خیبرپختونخواہ کو وزیراعلیٰ کے استعفے سے متعلق دو دستاویز موصول ہوئیں، دونوں استعفوں پر مختلف دستخط تھے، اس لیے گورنر نےعلی امین گنڈاپور کو استعفے کی تصدیق کیلئے بلایا، وزیراعلیٰ کا عہدہ خالی نہیں ہوا اور دوسرے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے، وزیراعلیٰ کا استعفیٰ بھیجا گیا، اس نے خود پیش نہیں کیا‘۔

جسٹس ارشد علی نے ریمارکس دیئے کہ ’آپ کا یہ پوائنٹ سمجھ گیا کہ جب تک استعفیٰ منظور نہ ہوعہدہ خالی نہیں ہوتا‘، جے یو آئی ف کے وکیل نے مزید کہا کہ ’وزیراعلیٰ کیلئے الیکشن غیرآئینی طورپر ہوا، ایسا نہیں ہونا چاہیئے تھا، استعفیٰ منظور ہوتا پھرالیکشن کرتے تو باقی بھی حصہ لیتے، ایک وزیراعلیٰ کے ہوتے ہوئے دوسرے وزیراعلیٰ کو منتخب کرنا آئینی ہلچل پیدا کرسکتا ہے، صوبائی کابینہ بھی تحلیل نہیں ہوئی بلکہ برقرار ہے‘۔

جسٹس ارشد علی نے استفسار کیا کہ ’جب وزیراعلیٰ نہ رہیں تو صوبائی کابینہ کہاں سے آگئی؟‘ جس پر جے یو آئی ف کے وکیل نے کہا ’یہی تو کہنا چاہتا ہوں کہ وزیراعلیٰ اب بھی علی امین گنڈاپور ہیں‘، جسٹس ارشد علی نے سوال کیا کہ ’آپ نے چیف جسٹس کے گزشتہ روز کا آرڈر پڑھا ہے؟‘، جے یوآئی ف کے وکیل نے جواب دیا کہ ’جی میں نے پڑھا ہے، انہوں نے وہاں پر بھی غلط درخواست دی ہے‘۔

جسٹس ارشد علی نے ہدایت کہ کہ ’آپ دوبارہ پڑھ لیں، چیف جسٹس کہتے ہیں کہ عہدہ خالی ہوا ہے، آپ نے اس آرڈر کو چیلنج نہیں کیا تو ہم کیا مداخلت کرسکتے ہیں؟ آپ نے اس آرڈر کو کیوں چیلنج نہیں کیا؟‘، درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ’وہ ایک ایڈمنسٹریٹو آرڈر جاری کیا گیا ہے اس لیے چیلنج نہیں کیا‘، اس کے بعد سلمان اکرم راجہ نے دلائل میں عدالت کو بتایا کہ ’چیف جسٹس کا آئینی آرڈر ہے ایڈمنسٹریٹو آرڈر نہیں‘، جسٹس ارشد علی نے کہا ’سوال یہ ہے کہ آئینی فورم نے ایک آرڈرجاری کیا تو ہم کیسے اس میں مداخلت کریں، آپ جا کر اپنے پیٹیشنرسے مشورہ کیوں نہیں کرلیتے؟‘۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ’وزیراعلیٰ کا عہدہ خالی ہے، صوبہ بغیر وزیراعلیٰ کا چل رہا ہے، چیف جسٹس نے جو احکامات جاری کیے ہیں، انہیں نظرانداز نہیں کرسکتے، جب تک چیف جسٹس کے احکامات کالعدم قرار نہ دیئے جائیں، اس پر عملدرآمد کیا جائے گا، اس آرڈر کو چیلنج کرنے کے بغیر یہ عدالت مداخلت نہیں کرسکتی، گورنر نے تو شیڈول بھی جاری کیا، اب یہ درخواست غیرمؤثر ہے، جہاں تک استعفے کی بات ہے تو جب استعفیٰ دیا گیا تب سے وہ مؤثر ہے یہاں تک کہ اپوزیشن نے وزیراعلی کے لیے اپنے امیدوار بھی کھڑے کیے پھر خود ہی عمل سے بائیکاٹ کیا‘، جسٹس ارشد علی نے جے یو آئی ف کو درخواست واپس لینے یا ضمنی درخواست جمع کرانے کی مہلت دی، جس پر جے یو آئی ف نے مشورہ کر کے بتایا کہ وہ اسی درخواست پر فیصلہ چاہتے ہیں‘۔

Live سے متعلق تازہ ترین معلومات