Live Updates

بھارت کا امریکی دبا ئوکے آگے سرتسلیم خم، روسی تیل کی درآمدات میں50 فیصد کمی منافقت کی انتہا

اتوار 19 اکتوبر 2025 14:40

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 19 اکتوبر2025ء) امریکی دبا ئوکی طویل مزاحمت کے بعدبھارت بالآخر روس سے تیل کی درآمدات میں 50فیصد کمی پر مجبور ہوگیا ہے۔کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق یہ فیصلہ نہ صرف واشنگٹن کے سامنے بھارت کی پسپائی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس کی سفارتی غیر یقینی، تضادات اور جیوپولیٹیکل مایوسی کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔

بھارتی سفارتکاری منافقت کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ چکی ہے۔امریکی دبا ئوکے سامنے جھکنے میں بھارت کی تاخیر سے اسے بین الاقوامی سطح پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے، وہی دبا ئوجسے اگر پہلے قبول کرلیا جاتا تو آج دہلی کو یہ سفارتی خفت نہ اٹھانی پڑتی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کسی وعدے یا بات چیت سے باربار انکار کے باوجود بھارت اب وائٹ ہائوس کے شدید دبائو کے بعد روسی تیل کی درآمدات میں 50فیصد کمی کرنے پر مجبور ہوا ہے۔

(جاری ہے)

یہ تاخیر سے کی گئی پسپائی اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت نہ صرف تزویراتی بصیرت سے محروم ہے بلکہ اس کی خارجہ پالیسی مکمل طور پر ردعمل پر مبنی ہے۔ اس کے علاوہ طالبان کے ساتھ بڑھتی ہوئی بھارتی قربت عالمی سطح پر اسکے اخلاقی تضاد اور تزویراتی منافقت کی تازہ مثال بن کر سامنے آئی ہے۔ طالبان کے ساتھ حالیہ بھارتی روابط جنہیں ابھی کچھ عرصہ پہلے تک عالمی برادری دہشت گرد تنظیم کے طور پر دیکھا جاتاتھا، بھارت کی مایوس کن کوششوں کی عکاسی کرتے ہیں کہ وہ ہر قیمت پر اپنے علاقائی اثرورسوخ کو برقرار رکھنے پر تلاہواہے چاہے اس کے لیے اسے اپنے ہی اصولوں سے انحراف کیوں نہ کرنا پڑے۔

طالبان کے ساتھ بھارت کی یہ نئی سفارتی چال اگرچہ بظاہر حقیقت پسندانہ لگتی ہے، مگر اس کے اخلاقی پہلو نہایت مشکوک ہیں۔ یہ اقدام دراصل پاکستان کے ساتھ بگڑتے تعلقات اور افغانستان میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خوف کا ردعمل معلوم ہوتا ہے۔ روس کے تیل پر امریکی مطالبات کو پہلے حقارت سے رد کرنا اور اب طالبان کے سائے میں پناہ ڈھونڈنا اس بات کی علامت ہے کہ بھارت خطے میں توازنِ طاقت قائم رکھنے کے لیے انتہاپسند عناصر کے ساتھ بھی ہاتھ ملانے سے گریز نہیں کرے گا، خصوصا جب اس کا ہدف پاکستان جیسے حریف ممالک ہوں۔

دوسری طرف بھارتی حکومت کی جانب سے ریفائنریوں کو تاحال روسی تیل کی درآمد میں کمی کے حوالے سے باضابطہ ہدایت نہ دینا ایک ایسے انتظامی تضاد کو ظاہر کرتا ہے جہاں دہلی عوامی سطح پر امریکہ کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہی ہے، مگر اندرونِ خانہ اپنی توانائی سلامتی کی کمزوریوں کو چھپانے میں مصروف ہے۔بھارت کی تازہ ترین خارجہ پالیسی ایک ایسے تضاد کی نمائندگی کرتی ہے جہاں وہ عالمی دبا ئوکے سامنے مزاحمت کا ڈھونگ رچاتا ہے لیکن جب دبائو بڑھتا ہے تو آخرکار جھک جاتا ہے، اور پھر انہی گروہوں سے تعلقات استوار کرتا ہے جنہیں وہ کل تک دہشت گرد قرار دیتا تھا۔

یہ رویہ بھارت کی غیر مستقل، مصلحت پسند اور اخلاقی طور پر کمزور سفارتکاری کو عیاں کرتا ہے جو قومی مفاد یا اصولوں پر نہیں بلکہ سیاسی بقا اور وقتی فائدے پر مبنی ہے۔
Live پاک افغان کشیدگی سے متعلق تازہ ترین معلومات