عبداللہ عبداللہ نے کامیابی کا دعویٰ کر دیا، دھوکے سے بننے والی حکومت کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔عبداللہ عبداللہ

بدھ 9 جولائی 2014 06:45

کابل (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔9جولائی۔2014ء )افغانستان کے صدارتی انتخابات کے امیدوار عبداللہ عبداللہ نے اپنے حریف اشرف غنی کی برتری کے اشاروں کے باوجود گذشتہ ماہ ہونے والے انتخابات میں اپنی کامیابی کا دعویٰ کر دیا ہے۔کابل میں اپنے حامیوں سے خطاب میں انھوں نے ایک بار پھر انتخابات کو متاثر کرنے کا الزام دہرایا۔اس سے قبل عبداللہ عبداللہ کی جانب سے متوازی حکومت کے ارادوں کی خبروں پر امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے افغانستان میں اقتدار کی رسہ کشی سے متعلق خبردار کیا تھا۔

امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے کہا تھا کہ غیر قانونی طریقے سے حکومت پر قبضے سے افغانستان کو ملنے والا امریکی تعاون ختم ہو سکتا ہے۔صدر کے لیے ہونے والے حتمی انتخابات کے امیدوار عبداللہ عبداللہ نے کہا ہے کہ وہ دھوکے باز حکومت کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔

(جاری ہے)

انھوں نے دوسرے اور حتمی دور کے نتائج کو چیلنج کیا ہے جن میں ان کے حریف اشرف غنی کو سبقت حاصل ہے۔

پیر کو سامنے آنے والے ابتدائی نتائج کے مطابق اشرف غنی نے 14 جون کو ہونے والی پولنگ میں 56 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کیے، جبکہ عبداللہ عبداللہ نے 43 فیصد سے کچھ زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔سب سے بڑا اعتراض ٹرن آوٴٹ کے بہت بڑی تعداد پر ہے کیونکہ یہ پہلے مرحلے کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ بعض حلقوں میں امیدواروں کو مشتبہ حد تک زیادہ ووٹ ملے اور خواتین کے ووٹوں کی تعداد بھی بہت زیادہ رہی جو مقامی روایات کے خلاف ہے۔

دریں اثنا افغانستان کے شمال مشرقی علاقے میں ایک خودکش بم حملے میں چار نیٹو فوجیوں سمیت 16 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔اطلاعات کے مطابق ہلاک شدگان میں دس شہری اور دو پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔عبداللہ عبداللہ نے کابل میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ دھوکے سے بننے والی حکومت کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔

اس سے قبل عبداللہ عبداللہ نے بی بی سی سے بات کرتے کہا تھا کہ وہ اپنے مخالف امیدوار کی جیت کا احترام کریں گے، تاہم یہ صرف اسی صورت میں ہوگا اگر یہ ثابت کر دیا جائے کہ یہ انتخاب شفاف ہے۔

دونوں امیدواروں نے ووٹنگ میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے تھے جن کے بعد انتخابات کے صوبائی نتائج ووٹوں کی جانچ کے لیے ایک ہفتے تک کے لیے موخر کر دییگئے تھے۔سب سے بڑا اعتراض ٹرن آوٴٹ کے بہت بڑی تعداد پر ہے کیونکہ یہ پہلے مرحلے کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ بعض حلقوں میں امیدواروں کو مشتبہ حد تک زیادہ ووٹ ملے اور خواتین کے ووٹوں کی تعداد بھی بہت زیادہ رہی جو مقامی روایات کے خلاف ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ کے ہزاروں حامیوں نے دھاندلی کے خلاف مظاہرے بھی کیے۔